رسائی کے لنکس

اوباما کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے پرافغانستان بدستورسرفہرست


اوباما کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے پرافغانستان بدستورسرفہرست
اوباما کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے پرافغانستان بدستورسرفہرست

کرزئی کی حکومت پر رشوت ستانی اور بد عنوانی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ جنرل سکوکروفٹ کہتے ہیں کہ افغانستان میں کرپشن کو مکمل طور سے ختم کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ وہاں اس معاملے کا ایک مختلف کلچرل پہلو بھی ہے ۔ وہاں آپ کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اپنے گھرانے کی دیکھ بھال کریں۔ اگر آپ کو حکومت میں کوئی بڑا عہدہ مل جاتا ہے تو آپ اس عہدے کو اپنے گھرانے کو فائدہ پہنچانے کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ کرپشن تو ہے لیکن اس کے محرکا ت وہ نہیں ہیں جو ہمارے ہوتے ہیں۔

افغانستان میں امریکہ کے 97,000 فوجی ہیں اور حکمت عملی کے تازہ ترین جائزے کے مطابق ، اگلی جولائی سے یہ فوجیں واپس آنا شروع ہو جائیں گی اگرچہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ ان کی واپسی کی شرح کیا ہوگی۔ ہدف یہ ہے کہ اگر حالات اجازت دیں، تو 2014 تک ، تمام جنگی کارروائیاں افغان سیکورٹی فورسز کے حوالے کر دی جائیں۔ امریکی نائب صدر جو بائڈن نے افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں اس نکتے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا’’امید یہ ہے کہ ہم ملک کی سیکورٹی کی مکمل ذمہ داری افغان فورسز کو سونپ دیں گے۔ لیکن اگر آپ یہ نہیں چاہیں گے کہ ہم ملک سے چلے جائیں، تو ہم نہیں جائیں گے۔‘‘

امریکہ کی قومی سلامتی کے سابق مشیر ایئر فورس کے ریٹائرڈ جنرل برنٹ سکوکروفٹ کہتے ہیں کہ امریکہ کی موجودہ حکمت عملی صحیح ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمار ے پاس مقررہ مدت کے اندر اس حکمت عملی پر عمل درآمد کے لیئے وسائل موجود ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ رہا ہے کہ طالبان کی فورسز کو علاقے سے نکال کر ، اپنا کنٹرول کیسے قائم رکھا جائے۔’’جیسے ہی ہم اس علاقے کو چھوڑتے ہیں، برے لوگ، یعنی طالبان پھر واپس آ جاتے ہیں۔ لیکن علاقے پر کنٹرول باقی رکھنے کے لیئے مزید فورسز کی ضرورت ہے اور اس کے لیئے افغان فوجیوں کو تربیت دینا ضروری ہے تاکہ ہم جو علاقے طالبان سے صاف کریں، ان پر افغان فورسز کنٹرول برقرار رکھ سکیں۔اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس کام کے لیئے ہماری اپنی فورسز اور تربیت یافتہ افغان فوجی کافی تعداد میں موجود ہیں۔‘‘

اس مہینے کے شروع میں، محکمۂ دفاع نے اعلان کیا کہ اب تک جو کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں انہیں مستحکم کرنے کے لیئے ، خاص طور سے جنوب میں قندھار کے علاقے میں جو طالبان کا گڑھ ہے، مزید 1,400میرین فوجی بھیجے جائیں گے ۔

ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ بہت سے ماہرین سوال کرتے ہیں کہ کیا افغان صدر کرزئی اپنے فرائض انجام دینے کے اہل ہیں اور کیا وہ امریکہ کے قابلِ اعتبار شراکت دارہیں۔ جنرل سکوکروفٹ کہتے ہیں ’’ہمیں شروع ہی سے ان کے ساتھ مسائل رہے ہیں لیکن ہم اس سلسلے میں کچھ کر نہیں سکتے۔ وہ اس ملک کے صدر ہیں اور ہمیں ان ہی کے ساتھ معاملات طے کرنا ہوں گے۔ ہمارا ایک مشترکہ مفاد ہے اور اگر ہم کامیاب نہیں ہوتے تو وہ بھی کامیا ب نہیں ہوں گے۔انہیں ہمارے تمام مفادات عزیز نہیں، انہیں اپنے مفاد کی فکر ہے۔ اور ہمیں اس مشکل صورت حال کو برداشت کرنا ہوگا۔‘‘

کرزئی کی حکومت پر رشوت ستانی اور بد عنوانی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ جنرل سکوکروفٹ کہتے ہیں کہ افغانستان میں کرپشن کو مکمل طور سے ختم کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ وہاں اس معاملے کا ایک مختلف کلچرل پہلو بھی ہے ۔ وہاں آپ کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اپنے گھرانے کی دیکھ بھال کریں۔ اگر آپ کو حکومت میں کوئی بڑا عہدہ مل جاتا ہے تو آپ اس عہدے کو اپنے گھرانے کو فائدہ پہنچانے کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ کرپشن تو ہے لیکن اس کے محرکا ت وہ نہیں ہیں جو ہمارے ہوتے ہیں۔

سابق نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کہتے ہیں کہ کرپشن کے خلاف جنگ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پوست کی کاشت کے مسئلے پر توجہ دی جائے ۔ پوست کو ملک کی اقتصادیات میں جو مقام حاصل ہے، اس سے کرپشن میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں افیون کی کل مقدار کا 85 فیصد حصہ افغانستان میں تیار ہوتا ہے۔

برنٹ سکوکروفٹ
برنٹ سکوکروفٹ

بہت سے تجزیہ کاروں میں یہ بحث جاری ہے کہ افغانستان بالآخر کس قسم کا ملک بنے گا۔ سکوکروفٹ کہتے ہیں کہ امریکہ کو یہ کوشش نہیں کر نی چاہیئے کہ افغانستان ایک جدید ملک بن جائے۔’’قدیم زمانے سے ہی افغانستان مقامی قبائل اور مخصوص مفادات کی نمائندگی کرنے والے گروپوں کا ڈھیلا ڈھالا مجموعہ رہا ہے جس پر ایک کمزور مرکزی حکومت کی حکمرانی رہی ہے ۔ہمیں اسے بدلنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے۔ افغانستان ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے اور اسے بدلنے کی کوشش کرنا ہمارے لیئے بہت بڑا کام ہوگا۔‘‘

برنٹ سکوکروفٹ کہتے ہیں کہ جب امریکہ اپنی فوجیں واپس بلانا شروع کرے گا اور اس کے بعد یورپی اتحادی ممالک اپنی فوجیں وہاں سے نکالیں گے، تو امریکی عوام اس قسم کے سوالات کے جواب طلب کریں گے کہ ہم اس ملک میں کیوں ہیں اور وہاں کیا کر رہے ہیں؟ وہ پوچھیں گے کہ کیا اس ملک میں اتنے پیسے خر چ کرنا اور اتنی انسانی زندگیوں کی قربانی دینا مناسب تھا۔

XS
SM
MD
LG