رسائی کے لنکس

طالبان سے مذاکرات میں انسداد دہشت گردی اور فوجی انخلا پر اہم پیش رفت ہوئی ہے: زلمے خلیل زاد


افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد، 28 جنوری 2019
افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد، 28 جنوری 2019

امریکہ کا کہنا ہے کہ افغانستان کے مفاہمتی عمل میں انسدادِ دہشت گردی اور غیر ملکی افواج کے انخلا جیسے اہم امور پر پیش رفت ضرور ہوئی ہے، لیکن ابھی بھی ان معاملات پر بہت سے کام کرنا باقی ہے، جبکہ افغانوں کے مابین مذاکرات اور جنگ بندی جیسے اہم امور پر بات کرنا ضروری ہے۔

افغانستان میں قیامِ امن کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد ان دنوں کابل میں ہیں اور افغان مفاہمتی عمل کے سلسلے میں انھوں نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’امن کا راستہ سیدھا اور آسان نہیں ہے۔‘‘

انھوں نے ٹویٹ کی کہ ’’افغانستان کی صورت حال بہت پچیدہ ہے اور حساس معاملات پر ہونے والی بات چیت میں سب کچھ کھلے عام بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘

انھوں نے طالبان سے حالیہ مذاکرات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’انسدادِ دہشت گردی اور افواج کے انخلا جیسے اہم اُمور پر پیش رفت ہوئی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب کچھ طے ہو گیا ہے، بلکہ اب اس پر بات چیت جاری ہے۔‘‘

خلیل زاد نے کہا کہ ’’افغانوں کے درمیان مذاکرات اور مکمل جنگ بندی جیسے اہم ترین اُمور پر بات چیت ابھی ہونی ہے۔‘‘

امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا اہم دور چند روز قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا تھا جس کے بعد امریکہ کے نمائندہ خصوصی کابل چلے گئے تھے۔

خطے کے اس حالیہ دورے میں انھوں نے افغانستان، پاکستان، روس اور چین کے حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔

دوحہ سے کابل پہنچنے کے بعد زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی کو مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا تھا۔

امریکہ کے نمائندہٴ خصوصی نے اپنے ٹویٹ میں حتمی معاہدے کے بارے میں بات کرنے والے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’بعض افراد پہلےحصے کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ معاہدہ مکمل ہو گیا ہے۔ لیکن، ہم ہاتھی کو ایک نوالے میں نہیں کھا سکتے ہیں۔‘‘

انھوں نے کہا کہ ’’چالیس سال کی جنگ ایک ملاقات میں ختم نہیں ہو سکتی، چاہیے یہ ملاقات ایک ہفتے تک ہی کیوں نہ جاری رہے۔‘‘

چند روز قبل نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے فریم ورک پر اصولی اتفاق کی تصدیق کی تھی۔

افغانستان کے مسقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ ’’اس وقت افغانوں کے پرانے زخم مندمل ہونا شروع ہوئے ہیں اور نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہاں بہت سے شراکت دار ہیں، کئی مسائل ہیں۔ لیکن اب ہم صحیح راستے پر ہیں۔‘‘

دوسری جانب افغان طالبان کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں افغانستان پر "مکمل اقتدار" کے خواہاں نہیں بلکہ افغان اداروں کی ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے، اے پی کے مطابق طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان نے کہا ہے کہ "افغانوں کو چاہیے کہ وہ اپنا ماضی بھلا کر اور ایک دوسرے کو برداشت کر کے بھائیوں کی طرح زندگی کا آغاز کریں۔ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ہم اقتدار پر اپنی اجارہ داری نہیں چاہتے۔‘`

امریکہ نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات شروع کریں لیکن طالبان کی جانب سے براہ راست مذاکرات میں کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔

امریکہ اور طالبان کے مابین آئندہ مذاکرات سے قبل مشترکہ تیکنیکی ٹیم تشکیل دیے جانے کا امکان ہے جو افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی تفصیلات اور مستقبل میں اس ملک کو دہشت گردوں کا گڑھ بننے سے روکنے کی حکمتِ عملی طے کرے گی۔

------------------------------------------------------------------------------------

وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاون لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ تریں خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔

ڈاون لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

اینڈرایڈ فون کے لیے: https://play.google.com/store/apps/details?id=com.voanews.voaur&hl=en

آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے: https://itunes.apple.com/us/app/%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88/id1405181675

  • 16x9 Image

    سارہ حسن

    سارہ حسن ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور ان دنوں وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے ان پٹ ایڈیٹر اور کنٹری کوآرڈینیٹر پاکستان کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG