منگل کے روز امریکی یہ فیصلہ کرنے کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں کہ آیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ری پبلیکن پارٹی کو امریکی کانگریس پر اپنی گرفت برقرار رکھنی چاہیے یا ڈیموکریٹس کو یہ اختیار مل جانا چاہیے کہ وہ صدر کے ایجنڈے کی رفتار کو سست کر سکیں۔ کیونکہ امیگریشن، تجارت اور نسل پرستی پر ان کے اقدامات کے حوالے سے ملک میں ایک واضح تقسیم نظر آ رہی ہے۔
سن 2016 میں صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد یہ پہلے ایسے الیکشن ہیں جنہیں تجزیہ کار ایک ریفرنڈم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ آج کی ووٹنگ یہ فیصلہ کر دے گی کہ آیا ڈیموکریٹس لبرل اور ٹرمپ مخالف ووٹروں کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
ڈیموکریٹس کے پاس کم ازکم ایوان نمائندگان جیتنے کا ایک اچھا موقع موجود ہے۔ تاہم رائے عامہ کے جائزے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ڈیموکریٹس سینٹ کا کنڑول حاصل کرنے کی امید بھی لگائے ہوئے ہیں۔
اگر ڈیموکریٹس دونوں ایوان جیت جاتے ہیں تو وہ ٹرمپ کی انتظامیہ کے خلاف کئی طرح کی کانگریشنل تحقیقات شروع کر سکتے ہیں، جن میں صدر ٹرمپ کی ٹیکس ریٹرنز، مفادات سے متصادم معاملات، سعودی عرب، روس اور شمالی کوریا کے امور شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی امیگریشن پالیسی، ٹیکس کٹوتیاں اور تجارت کے معاملات بھی موضوع بن سکتے ہیں۔
اگر ری پبلیکن کانگریس کے دونوں ایوانوں کا کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ٹرمپ اپنے مخصوص انداز میں آگے بڑھتے رہیں گے۔ ایک مہینہ پہلے سینیٹ سے سپریم کورٹ میں اپنے نامزد کردہ جج بریٹ کی توثیق حاصل کرنے کے بعد وہ کافی پرامید دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے نامزد کردہ جج کے خلاف جنسی ہراساں کرنے کے الزامات تھے۔
یہ انتخابات ہاؤس کی تمام 435 سیٹوں، سینیٹ کی 35 اور گورنروں کی 36 نشستوں پر ہو رہے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ درجنوں ایسی سیٹیں ہیں جہاں کے نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ نتائج اپ سیٹ بھی کر سکتے ہیں۔
ڈیموکریٹس کو اگر ایوان میں بالادستی درکار ہے تو انہیں کم ازکم 23 اضافی نشستیں حاصل کرنا ہوں گی۔