رسائی کے لنکس

'ڈس انفارمیشن' پھیلانے میں روس اور چین دونوں ملوث ہیں، مطالعاتی رپورٹ میں الزام


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کریملن اور چین کی کمیونسٹ پارٹی ایک دوسرے سے یہ سیکھ رہے ہیں کہ اطلاعات کی لڑائی کیسے لڑی جاتی ہے۔ ایک نئی مطالعاتی رپورٹ کے مطابق، اس کا مقصد یہ ہے کہ مغرب میں کس طرح سیاسی تقسیم عام کی جائے اور جمہوریت میں عوام کے اعتماد کو مبینہ طور پر کس طرح ٹھیس پہنچائی جائے۔

واشنگٹن میں قائم تحقیقی ادارے، 'سینٹر فار یورپین پالیسی انالسز' نے بتایا ہے کہ اس میدان میں قریبی تعاون کے بارے میں موجود ثبوت محدود نوعیت کا ہے؛ لیکن اس سلسلے بیانیے کی موجود مثالیں کئی ایک ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، اس میں سال 2019ء کے اواخر میں چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس کے انکشاف کے بعد چلائی گئی غلط معلومات کی مہم کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں، چین کے ماہرین نے مبینہ طور پر روس کے غلط اطلاعات دینے والوں کے وضع کردہ طریقہ کار کو اپنایا، جس میں انہی اصطلاحوں کا چربہ، طریقہ کار اور تیکنیک کے عمل کو دہرایا گیا۔

تحقیق کار بین دوبو، ایڈورڈ لکاس اور جیک مورس نے اپنی اس رپورٹ میں کہا ہے کہ ''کووڈ 19 کی وبا کے دوران، چین کی کمیونسٹ پارٹی نے ویکسین کی افادیت اور وائرس کی ابتدا سے متعلق غلط اطلاعات پھیلائیں؛ جو کہ چین کی جانب سے ماضی میں اختیار کردہ انداز سے مختلف مہم تھی جس میں محض چین کے ہی متعلق معاملات کو اچھالا جاتا تھا، جیسا کہ تبت، ہانگ کانگ اور تائیوان۔''

رپورٹ کے مصنفین نے بتایا ہے کہ ''غلط اطلاعات پر مبنی اس بیانیے پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ روس کی وضع کردہ داستان ہی کا چربہ ہے، جس میں چین کے کرداروں کو ڈالا گیا ہے۔ اسی طرح، روس بھی چین کے انداز فکر کو اپنانے کی کوشش کر رہا ہے''۔

انھوں نے مزید کہا کہ چین اطلاعات کی لڑائی میں استعمال ہونے والے روس کے حربوں کی نقل کر رہا ہے، تاکہ بیانیے میں یکسانیت کا عنصر پایا جائے۔ اس کے برعکس، روس کی حکمت عملی میں مبینہ دروغ گوئی کا کھل کر استعمال کیا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مصنفین نے کہا کہ ''حالانکہ، اس سلسلے میں روس کے پاس زیادہ وسائل موجود ہیں، چین کی غلط اطلاعات کی جنگ میں رائے عامہ کو متاثر کرنا اور معاشروں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کرنا ایسے ہتھکنڈے ہیں جو آزمائش کی سطح سے گزر رہے ہیں''۔

ہزاروں ویب سائٹس

اس مطالعاتی رپورٹ میں، تحقیق کاروں نے مارچ 2020ء سے مارچ 2021ء کے عرصے کے دوران روس اور چین کی حکومتوں اور دونوں ملکوں کے سرکاری تحویل میں کام کرنے والے اداروں کی جانب سے پھیلائے گئے سوشل میڈیا کے ہزاروں پیغامات اور ویب سائٹس کے مضامین کو دیکھا اور پرکھا۔ ساتھ ہی، عالمی سطح پر سازش کے نظریات پھیلانے کے معاملے پر روس اور چین کے 'ڈس انفارمیشن' کے مبینہ نظام پر دیگر گروپوں اور مطالعاتی اداروں کی رپورٹوں پر بھی نظر ڈالی گئی، تاکہ حاصل کردہ نتائج کا موازنہ کیا جا سکے۔ اس ضمن میں، کووڈ 19 کی وبا کے دوران روس اور چین کی 'ڈس انفارمیشن' کی کارروائیوں کو بھی پیش نظر رکھا گیا۔

گزشتہ ہفتے جب یہ رپورٹ شائع ہوئی، 'میٹا' نے، جو فیس بک اور انسٹاگرام کا سرپرست ادارہ ہے، اعلان کیا کہ اس کی جانب سے چین کی مبینہ سرپرستی میں چلنے والے سوشل میڈیا کے 600 سے زائد اکاؤنٹس کو بند کر دیا گیا ہے، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکہ عالمی ادارہ صحت پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ یہ کہے کہ کووڈ 19 کا الزام حکومتِ چین پر عائد ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ چین اور روس نے وبا کو بہانہ بنا کر جمہوریت پر اعتماد کو دھچکا پہنچانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، جس میں مغرب کو اطلاعات کی لڑائی کا میدان بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؛ تاکہ جمہوری اور مطلق العنان حکومتوں کے درمیان مسابقت کی نوعیت کے پروپیگنڈا کے ایک نئے باب کا اضافہ کیا جا سکے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو جمہوریت پر ورچوئل اجلاس کے پہلے دن واشنگٹن ڈی سی سے خطاب میں کہا کہ یہ ایک انتہائی تاریخی لمحہ ہے۔ انھوں نے جمہوری رہنماؤں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس بات کا ادراک عام ہونا چاہیے کہ جمہوری معاشرے مطلق العنان معاشروں سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ، اینٹنی بلنکن نے بدھ کے روز خبردار کیا کہ وبائی صورت حال کے دوران جمہوری ملکوں کے لیے چیلنجوں میں اضافہ ہوا ہے؛ اور انھوں نے اصولوں کی پاسداری نہ کرنے والے لیڈروں پر الزام لگایا کہ وہ 'مس انفارمیشن' اور 'ڈس انفارمیشن' پھیلا رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین ابھی تک مغربی ملکوں کی جانب سے وبا کی ابتدا کے دوران کووڈ 19 سے نبردآزما ہونے کے معاملے پر چین پر کی جانے والی نکتہ چینی کو مسترد کرتا ہے۔ ادھر روس ان الزامات کو رد کرتا ہے کہ وہ 'ڈس انفارمیشن' کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے اور اسے پھیلانے کی کوششوں میں ملوث ہے۔

XS
SM
MD
LG