رسائی کے لنکس

صدا نا باغیں بلبل بولے صدا نا باغ بہاراں


عنایت حسین بھٹی ایک لوک فنکار اور گلوکار ہونے کے ساتھ ساتھ اداکار ،پروڈیوسر ، ڈائریکٹر ،اسکرپٹ رائٹر ،سوشل ورکر،کالمسٹ اور مذہبی سکالر بھی تھے

سوہنی کے شہر گجرات سے اٹھنے والی دلکش آواز آج بھی اپنے مداحوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ عنایت حسین بھٹی ایک لوک فنکار اورگلوکار ہونے کے ساتھ ساتھ اداکا، پروڈیوسر، ڈائریکٹر، اسکرپٹ رائٹر، سوشل ورکر، کالمسٹ اور مذہبی سکالر بھی تھے۔ انہوں نے پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے بھی بہت کام کیا۔

زمیندارا کالج گجرات سے بی۔اے کرنے کے بعد وہ لاء کرنے کا خواب لے کر لاھور سدھارے۔ لیکن حالات نے زندگی کا دھارا کسی اور ہی رخ موڑ دیا، وہ وکیل بننے کے بجا ئے ایک ایسے فنکار کی صورت میں ابھرے جس کا نام ہر سو گونجنے لگا۔ بھٹی صاحب نے پہلی پرفارمنس YMCA ہا ل میں سید اعجاز حسین گیلانی کے پلے میں دی۔ پھر لاھور ریڈیو سے صداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری کے میدان میں قدم رکھااور لوگوں کو اپنی آواز کے سحر میں جکڑ لیا۔ 1949 میں ہدایتکار نذیر کی فلم ’’پھیرے ‘‘ میں میں پلے بیک سنگنگ کی ،اس فلم کے گیتوں نے راتوں رات انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

گلوکاری کے ساتھ ساتھ انہوں نے 300 سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ معروف فلم ’’ہیر‘‘ میں سورن لتا کے مد مقابل کام کیا،بھٹی پروڈکشن کے بینر تلے آپ نے تقریباًٍ 30 فلمیں پروڈیوس کیں جن میں ’’چن مکھناں‘‘ بلاک بسٹر ثابت ہوئی ۔’’ ان کے گائے ہوئے گیت ’’چن میرے مکھناں ‘‘ کے آج بھی ریمکس بن رہے ہیں اس فلم کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

عنایت حسین بھٹی نے اردو ،پنجابی،سندھی،سرائیکی اور بنگالی میں 2500 سے زائد گیت گائے۔ ان کی خدمات کے صلے میں انہیں کئی سرکاری اور غیر سرکاری اعزازات سے نوازا گیا۔1997ء میں فالج کے حملے کے سبب ان کے مداح اس سحر ذدہ کر دینے والی آواز سے محروم ہو گئے۔ انہیں آبائی شہر گجرات لے جایا گیا جہاں دو برس بعد 31 مئی 1999 کو عنایت حسین بھٹی ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے لیکن ان کی آواز اپنے جادوئی اثر کے ساتھ آج بھی زندہ ہے۔

XS
SM
MD
LG