رسائی کے لنکس

بے نظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ محفوظ


فائل
فائل

پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے مقدمۂ قتل کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو 31 اگست کو سنایا جائے گا۔

استغاثہ کے وکیل کے مطابق راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قائم انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج اصغر علی خان نے بدھ کو ملزمان اور استغاثہ کے وکلا کی موجودگی میں کہا کہ عدالت اس مقدمے کا فیصلہ جمعرات کو سنائے گی۔

مقدمے میں استغاثہ کے وکیل محمد اظہر چوہدری نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ استغاثہ اور ملزمان کے وکلا نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

اظہر چوہدری نے بتایا کہ اس مقدمے کی تفتیش میں 16 افراد کے خلاف الزام عائد کیا گیا ہے جن میں سے سات پولیس مقابلوں اور وزیرستان میں ڈرون حملوں میں مارے گئے تھے جب کہ باقی آٹھ کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔

اظہر چوہدی نے بتایا کہ مقدمے میں نامزد ملزم سابق صدر پرویز مشرف کے بیرون ملک چلے جانے کے بعد ان کا مقدمہ باقی ملزمان سے الگ کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ باقی آٹھ ملزمان میں سے ایک ملزم کو عدالت نے اشتہاری قرار دے دیا تھا جب کہ باقی سات ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت مکمل ہو گئی ہے۔

اظہر چوہدری نے کہا کہ ملزمان میں دو پولیس افسر سعود عزیز اور خرم شہزاد بھی شامل ہیں جبکہ باقی ملزمان میں رفاقت حسین، حسنین گل، رشید ترابی، شیر زمان اور اعتزاز شاہ جن کا تعلق قبائل علاقے وزیرستان سے ہے شامل ہیں۔

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے کے بعد ہونے والے ایک بم دھماکے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔

دونوں اعلیٰ پولیس افسران پر الزام ہے کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کے قافلے کے لیے سکیورٹی پلان میں رد و بدل کیا تھا اور واقعے کے فوراً بعد جائے وقوع کو دھلوا دیا تھا، جس سے وکیلِ استغاثہ کے مطابق اس مقدمے کے کئی اہم شواہد حاصل نہیں ہو سکے تھے۔

دونوں افسران اس وقت عدالت کے حکم پر ضمانت پر رہا ہیں۔

استغاثہ کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ مختلف اداروں کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک سازش کے تحت بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا جس میں ان ملزمان کو استعمال کیا گیا۔

اظہر چوہدری نے کہا کہ ملزمان نے عدالت میں تمام الزمات مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا گیا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف بھی متعدد بار بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سےخود پر لگائے گئے الزامات کو سختی سے مسترد کر تے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کو 2007ء میں ان کی ملک واپسی کے بعد اس وقت کی حکومت کی طرف سے مکمل سیکورٹی فراہم کی گئی تھی لیکن جب وہ جلسہ کے بعد واپس جاتے ہوئے اپنی گاڑی سے باہر نکلیں تو بم دھماکے کا نشانہ بن گئیں۔

بے نظیر بھٹو دوبار پاکستان کے وزیر اعظم رہیں اور ان کے قتل کے بعد ان کی جماعت پیپلز پارٹی پانچ سال تک برسرِ اقتدار اور ان کے شوہر آصف علی زرداری ملک کے صدر رہے تھے۔

XS
SM
MD
LG