رسائی کے لنکس

چین جارحانہ رویے اور شمالی کوریا انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہے: امریکی وزیرِ خارجہ کا انتباہ


امریکی سیکرٹری خارجہ اینٹونی بلنکن کی جنوبی کوریائی ہم منصب سے ملاقات ۔ فوٹو ، رائٹرز
امریکی سیکرٹری خارجہ اینٹونی بلنکن کی جنوبی کوریائی ہم منصب سے ملاقات ۔ فوٹو ، رائٹرز

امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے چین اور جنوبی کوریا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین ایشیا بحرالکاہل خطے میں جارحانہ اور جبر والا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے اور شمالی کوریا اپنے ہی لوگوں کے خلاف منظم اور وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کر رہا ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن اور وزیر دفاع لوئیڈ آسٹن جاپان اور جنوبی کوریا کے دورے پر ہیں۔ وہ ٹوکیو کا دورہ مکمل کرنے کے بعد بدھ کے روز بات چیت کے لیے جنوبی کوریا پہنچے ہیں۔

اس علاقائی دورے کا مقصد ایشیا بحرالکاہل خطے میں چین اور شمالی کوریا کے بڑھتے ہوئے جارحانہ چیلنجوں سے خاطر خواہ طریقے سے نمٹنا ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق بلنکن نے شمالی کوریا کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تنقید کرتے ہوئے امریکہ کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو ختم کر دے گا۔ اس سے ایک روز قبل شمالی کوریا نے امریکہ کو متنبہ کیا تھا کہ وہ خطے میں فساد پھیلانے سے باز رہے۔ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان جوہری مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ نے جنوبی کوریا پہنچ کر وزیر خارجہ چونگ یی یونگ سے ملاقات سے قبل کہا کہ شمالی کوریا کی آمرانہ حکومت اپنے ہی لوگوں کے خلاف منظم اور وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیاں کر رہی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ اور علاقائی قوتوں کو شمالی کوریا کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے جو اپنے بنیادی حقوق اور آزادیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اُن کے خلاف بھی جو ان پر جبر کر رہے ہیں۔

بلنکن نے شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگرام کو خطے اور دنیا کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ جنوبی کوریا اور جاپان اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر شمالی کوریا کو جوہری اسلحے سے پاک کرنے کی کوشش کرے گا۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور جنوبی کوریا کے وزیر دفاع کی ملاقات کو اہم سجھا جا رہا ہے۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور جنوبی کوریا کے وزیر دفاع کی ملاقات کو اہم سجھا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق، امریکی وزرائے خارجہ اور دفاع کی اپنے جنوبی کوریائی ہم منصبوں سے بات چیت میں شمالی کوریا کو جوہری معاملات پر بات چیت کے لیے دوبارہ آمادہ کرنا ترجیحی موضوع ہو گا۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے کوریائی ہم منصب سوہ وُوک سے بدھ کے روز ملاقات کی، جس کے دوران آسٹن کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا اور چین کی جانب سے درپیش غیر معمولی چیلنجوں کے تناظر میں، دونوں ملکوں کا اتحاد اس سے پہلے کبھی اتنا اہم نہیں تھا جتنا اب ہے۔

منگل کے روز شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن کی بہن، کم یو جونگ نے امریکہ اور جنوبی کوریا پر مشترکہ فوجی مشقیں کرنے پر تنقید کرتے ہوئے امریکہ کو متنبہ کیا کہ وہ خطے میں ’فساد‘ پھیلانے سے باز رہے۔ شمالی کوریا امریکہ اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقوں کو شمالی کوریا پر چڑھائی کی ایک مشق سمجھتا ہے۔

شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی میں شائع ہونے والے کم یو جونگ کے بیان میں، امریکہ کی نئی انتظامیہ کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ آئندہ چار برسوں کے دوران وہ 'چین کی نیند سوئیں' تو پھر اُن کے لیے یہ اچھا ہو گا کہ وہ 'وار گیمز' یا جنگی حربوں سے پرہیز کریں۔

بیان میں جنوبی کوریا کے حکام سے کہا گیا ہے کہ جنگی مشقیں شروع کرنے پر انہیں 'نتائج' کا سامنا کرنے کو تیار رہنا چاہئے۔ یہ مشقیں اس مہینے کے آغاز پر شروع ہوئی تھیں۔

بعض ماہرین کے نزدیک، شمالی کوریا کی جانب سے اس بیان کو، دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں مزید ہتھیاروں کے تجربات کر سکتا ہے۔ یہ بیان امریکہ کی نئی انتظامیہ کے خلاف پہلی ایسی دھمکی ہے۔ اس سے پہلے، شمالی کوریا نے ایسی ہی شعلہ بیانی کا مظاہرہ ٹرمپ انتظامیہ کے ابتدائی ایام میں کیا تھا۔

اُدھر چین کی وزارتِ خارجہ نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں امریکی وزیر خارجہ کے دورہ جاپان کے دوران جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک نے اس کی خارجہ پالیسی پر ’’بد نیتی پر مبنی حملہ‘‘ کیا ہے اور اس کے "اندرونی معاملات میں سنگین مداخلت کی ہے"۔

ادھر چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤلی ژیان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ جاپان تعلقات کو کسی تیسرے فریق کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ترجمان نے امریکہ اور جاپان پر زور دیا کہ وہ ایشیا پیسفک علاقے میں امن و استحکام کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔

چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاؤلی ژیان نے بیان میں کہا ہے کہ چین مشترکہ اعلامیہ پر اپنے سخت عدم اطمینان اور اختلاف کا اظہار کرتا ہے۔ چین کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رواں ہفتے کے آخر میں، اینٹنی بلنکن اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان ر یاست الاسکا میں چین کے وزیر خارجہ وینگ یی اور چین کی خارجہ پالیسی کے چوٹی کے مشیر ینگ جائی ژی سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

امریکہ اور جاپان کی جانب سے جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں تائیوان کو درپیش خطرات، چین کے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے ریکارڈ، اور جنوبی چین کے سمندر میں چین کی سرگرمیوں اور ان اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جو چین جاپان کے زیر انتظام مشرقی چین کے سمندری جزائر پر کنٹرول کے لئے یکطرفہ طور پر کر رہا ہے۔ چین ان جزائر کے انتظام کو متنازعہ قرار دیتا ہے ۔

جاپانی ہم منصبوں سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان میں امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے چین کو خبردار کیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو امریکہ، چین کی طرف سے علاقے میں دھونس اور زبردستی کے اقدامات کا مناسب جواب دے گا۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ چین ، ایک ایسا ملک ہے جو خطے میں عالمی نظم و نسق کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اورجنوبی چین کے سمندر اور اس کے مشرق میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اِن پانیوں میں جارحانہ طور پر اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ اورمزید بحری علاقے پر اپنے حقوق کا دعوے دار ہے۔

ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ ریاست الاسکا میں امریکی اور چینی عہدیداروں کے درمیان ہونے والی طے شدہ ملاقات منقطع ہو گی۔ چینی ترجمان نے کہا ہے کہ چین سنکیانگ اور ہانگ کانگ میں اپنی پالیسیوں پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

بلنکن کہہ چکے ہیں الاسکا میں ہونے والی ملاقات، دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تعلقات میں نئے شفافیت لانے کی ایک کوشش ہے۔

XS
SM
MD
LG