رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں پولیس کی شروع کی گئی ’مردم شماری‘ پر سوالات کیوں اُٹھ رہے ہیں؟


’’دو ہفتے قبل مقامی تھانے سے ایک ٹیم گھر میں داخل ہوئی۔ انہوں نے ایک رجسٹر میں میرے اور دیگر افرادِ خانہ کے نام، عمر، پیشہ اور آدھار کارڈ (شناختی کارڈ) کے نمبر اور دیگر تفصیلات لکھیں۔ اس کے ساتھ ہی میرا موبائل فون نمبر اور ہم سب کے باقی کوائف درج کرلیے۔ میرے پاس گاڑیوں کی تعداد اور ان کے نمبر پوچھے اور جاتے جاتے ہمارے گھر کی تصویر بھی کھینچیں۔"

سرینگر کے شہری مدثر میر (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے وائس آف امریکہ کو یہ تفصیلات بتاتے ہوئے یہ بھی اضافہ کیا کہ انہیں مقامی مسجد کی انتظامیہ نے پولیس کی طرف سے جاری کیا گیا ایک 'سروے' فارم دیا ہے اور کہا ہے کہ اسے پُر کرکے ایک ہفتے کے اندر اندر مقامی تھانے میں جمع کرانا ہے۔

بھارت کی طرح جموں و کشمیر میں بھی باقاعدہ مردم شماری شروع نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ملکی سطح پر ہونے والی مردم شماری میں اتنی باریک بینی سے تفصیلات جمع کی جاتی ہیں۔ لیکن پولیس کی شروع کی گئی ’مردم شماری‘ میں کئی باتیں مختلف ہیں۔

اس کے دوران پولیس اور فوج کے اہل کار گھر کے تمام افراد کی تصویریں جمع کرنے، موبائل فون نمبر پوچھنے کے علاوہ عسکریت پسندوں کے ساتھ روابط کے بارے میں بھی سوالات کر رہے ہیں۔

اتنی تفصیلی اسکریننگ کی وجہ سے عام شہریوں میں خدشات پائے جاتے ہیں جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔

ان کے نزدیک یہ جموں و کشمیر میں مقامی آبادی پر ریاست کی گرفت کو مضبوط تر بنانے کی ایک کوششں ہے جس میں لوگوں کی نجی زندگی میں دخل اندازی ہورہی ہے اور یہ بھارت کے آئین کے بھی منافی ہے۔

عسکریت پسندوں سے روابط کے سوالات

پولیس کے دیے گئے فارم میں کنبے کے ہر فرد کے نام، عمر، پیشے اور دیگر کوائف درج کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے سوالات بھی شامل کیے گئے ہیں کہ آیا خاندان کا کوئی فرد عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطے میں رہا ہے یا نہیں؟ وہ سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے ساتھ ہوئے کسی مقابلے یا انکاؤنٹر میں کسی طرح ملوث تو نہیں رہا ہے؟

خاندان کے ہر فرد کے غیر ملکی سفر کی تفصیلات بھی فارم میں درج کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اگر خاندان کا کوئی فرد بیرون ملک مقیم ہے تو یہ بتانا بھی لازم ہے کہ وہ وہاں کس مقصد کے تحت قیام پذیر ہے۔

گھر میں سی سی ٹی وی لگا ہوا ہے تو اس کے انداراج بھی فارم میں ضروری ہے۔

مدّثر میر کا کہنا ہے:"مجھے اس فارم نے فکر میں ڈال دیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ مجھے ہمارے گھرانے کے خواتین کی تصویریں اور موبائل فون نمبر پولیس کے ساتھ شئر کرنے چاہییں یا نہیں کیوں کہ اس کی کوئی گارنٹی نہیں دی جارہی کہ ان کا غلط استعمال نہیں ہوگا۔"

بھارتی فوج نے اس سے پہلے 2019 میں جموں و کشمیر کے کئی علاقوں اور بالخصوص لائن آف کنٹرول کے قریب واقع آبادیوں میں اس طرح کے سروے یا ’مردم شماری‘ کا آغاز کیا تھا اور حالیہ ہفتوں میں اس کی یہ سرگرمی پھر مشاہدے میں آرہی ہے۔

فورسز کے اہل کار ہر گھر کو ہندسوں کے ساتھ نشان زد کر رہے ہیں اور خاندان کے تمام افراد کی تفصیلات طلب کرکے گھر کو جیو ٹیگ کرتے ہیں۔

اپوزیشن کا ردِ عمل

سابق وزیر ِ اعلیٰ اور اپوزیشن جماعت نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ نے پولیس کی ’مردم شماری‘ کو مضحکہ خیز اور ذلت آمیز قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا: "میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ پولیس ایسا کس قانون یا اختیار کے تحت کررہی ہے۔ پولیس کے اس عمل نے عام لوگوں میں تشویش پیدا کردی ہے۔"

ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کی قیادت میں قائم جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے پولیس کے سروے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ عام کشمیریوں کے موروثی حقوق اور شناخت پر براہِ است وار ہے۔

سابق ممبر اسمبلی اور بھارت کی مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے مقامی لیڈر محمد یوسف تاریگامی کا کہنا تھا: ’’بے خبر شہری اسے ریاست کی طرف سے ان پر اپنی گرفت مضبوط تر کرنے کی ایک اور کوشش سمجھتے ہیں۔ حکومت کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ ان کے خدشات کو دور کریں ۔"

انہوں نے کہا کہ اگر کسی شخص کےذاتی کوائف اُس کی مرضی کے بغیر جبرا" حاصل کیے جاتے ہیں تو یہ اس کی رازداری کی کھلی خلاف ورزی ہے اور بھارت کا آئین و قانوناس کی اجازت نہیں دیتے۔

تجزیہ کار ڈاکٹر ارون کمار کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ پولیس یا فوج کی طرف سے ہونے والے سینسز کے دوران فراہم کردہ نجی انفارمیشن کے غلط ہاتھوں میں جانے کے بارے میں خدشات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر متعلقہ حکام اپنے کام میں مخلص ہیں تو انہیں ایسا میکنزم اختیار کرنا چاہیے جس سے لوگوں کے خدشات کا ازالہ ہو۔

پولیس کا مؤقف

پولیس حکام عام لوگوں میں پائے جانے والے خدشات کو بے بنیاد اور حزبِ اختلاف کی نکتہ چینی کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔

ایک اعلیٰ پولیس عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا:"ہم ایسا کئی برسوں سے کرتے چلے آئے ہیں۔ جموں و کشمیر پولیس رولز مینول کے تحت پولیس کو شہریوں کے کوائف جمع کرنے کا اختیار حاصل ہے۔‘‘

ان کا کہان تھا کہ جموں و کشمیر سنگین حالات سے گزرا ہے۔ یہاں اب بھی دہشت گرد سرگرم نظر آرہے ہیں۔ لہذا پولیس کے لیے یہ جاننا بھی ناگزیز ہے کہ جس گھرانے کے بارے میں تفصیلات اکٹھا کی جارہی ہیں اس کا کوئی فرد علحیدگی پسندوں یا دہشت گردوں کے رابطے میں تو نہیں ہے۔۔

پولیس عہدے دارنے مزید کہا کہ ہم شہریوں کے کوائف کے بارے میں اپنے ریکارڈ کو اَپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ اس مرتبہ جو تبدیلی نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ شہریوں سے ایک مخصوص فارم کو پُر کرنے کے لیے کہا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ یہ ان کے مفاد میں ہے کیوں کہ اس طرح جمع کیا گیا ڈیٹا عام جرائم سے نمٹنے میں مدد دیتا ہے۔

پولیس عہدے دار کے بقول، ہمیں یہ خبر ہونی چاہیے کہ کس گھرانے میں کتنے افراد ہیں اور جب انہیں ہماری مدد کی ضرورت پیش آئے تو ہم ان تک کس طرح جلد ازجلد پہنچ سکتے ہیں۔

لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کی حکمتِ عملی کا ایک اہم جز مسلسل نگرانی کرنا ہے۔

ان کے خیال میں خاص طور پر اگست 2019 میں نئی دہلی کی طرف سے ریاست کی آئینی نیم خود مختاری کو منسوخ کرنے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہ ِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنانے کے متنازع اقدامات کے بعد نگرانی کے نظام کو مزید سخت کیا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG