رسائی کے لنکس

لاپتا بلوچ طلبہ کیس: 'وزیرِ اعظم اور وزرا جواب نہیں دے سکتے تو انہیں عہدوں سے ہٹانا چاہیے'


اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا بلوچ طلبہ کیس میں نگراں وزیرِ اعظم کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر نگراں وزیرِ اعظم اور وزرا جواب نہیں دے سکتے تو اُنہیں عہدے سے ہٹانا چاہیے۔

پیر کو کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وزیرِ اعظم دوسری دفعہ نہیں آئے۔ ان کو اس لیے بلایا تھا کیوں کہ وہ جواب دہ ہیں۔ سیکریٹری دفاع، سیکریٹری داخلہ، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی سرکاری ملازم ہیں۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 13 فروری کو لاپتا بلوچ طلبہ کی بازیابی کے لیے نگراں وزیرِ اعظم، نگراں وزیرِ داخلہ سمیت دیگر اعلٰی حکام کو طلب کیا تھا، تاہم نگراں وزیرِ اعظم عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

پاکستان میں بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں کی شکایات حالیہ برسوں میں سامنے آتی رہی ہیں۔ اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت مختلف عدالتوں میں کیسز زیرِ سماعت ہیں۔

ماضی میں نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

'لاپتا بچوں کی مائیں، بہنیں ڈھونڈ رہی ہوں گی'

دورانِ سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ یہ سب افسران جواب دہ ہیں کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔ اپنے ملک کے شہریوں کی بازیابی کے لیے دو سال لگے۔ نگراں وزرا، سیکریٹری دفاع، سیکریٹری داخلہ کدھر ہیں۔ لاپتا بچوں کی مائیں بہنیں ہوں گی وہ ڈھونڈ رہی ہوں گی۔

اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ 12 لاپتا طلبہ ابھی بازیاب نہیں ہوئے جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میری معلومات کے مطابق آٹھ طلبہ بازیاب نہیں ہوئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تین حکومتیں ابھی تک لاپتا بلوچ طلبہ کی بازیابی کے لیے کچھ نہیں کر سکیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ یہ لوگ خود بھاگ گئے یا کسی تیسرے نے اغوا کیا۔ اس صورت میں پھر ریاستی اداروں کی ناکامی ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ نئی حکومت آئے گی انہیں پالیسی بنانے کا وقت دیں جس پر جسٹس محسن نے استفسار کیا کہ وہ کیا کہیں گے کہ جبری گمشدگیاں ہونی چاہئیں؟ کچھ اداروں کو جو استثناً ملا ہوا ہے وہ نہیں ملنا چاہیے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ایم پی او آرڈرز کو غلط استعمال کرتے رہے۔ اب عدالتی فیصلے کے بعد وہ توہینِ عدالت کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔

'آئی جی 10 دن کے لیے جیل جائیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا'

کمرۂ عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ رات میرے گھر پر ماسک پہنے لوگوں نے چھاپہ مارا او میرے ملازم کو پکڑ کر لے گئے۔

جسٹس محسن اختر نے کہا کہ شیر افضل مروت کے گھر رات تین بجے کیوں گئے؟ یہ ایم این اے اور وکیل ہیں ان کے ساتھ اسلام آباد میں یہ ہو رہا ہے۔ اگر رکن اسمبلی کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے تو بلوچستان میں عام لوگوں کے ساتھ کیا ہو گا۔ آئی جی کا رویہ ٹھیک نہ ہو گا تو ہٹا دینا چاہیے۔

شیر افضل مروت نے اس موقع پر کہا کہ آئی جی اسلام آباد 10 دن کے لیے جیل جائیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

بلوچ طلبہ کی وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران مزید طلبہ کو بھی جبری طور پر گمشدہ کیا گیا، حکومت بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا، یہ ریاستی پالیسی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کمرۂ عدالت میں موجود پولیس افسران سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یونیفارم کی عزت کو بحال کرانے کی ضرورت ہے، اپنے آئی جی کو بتا دیں کہ اسلام آباد میں کوئی اغوا ہوا تو ایف آئی آر آئی جی کے خلاف ہو گی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پارلیمنٹ نے بدقسمتی سے جبری گمشدگیوں کو جرم قرار نہیں دیا، اگر اسے جرم قرار دیا جاتا تو پھر یہ سلسلہ کہیں رُک جاتا۔

عدالت نے 28 فروری کی سماعت میں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، وزیرداخلہ اور وزیر دفاع کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔

بلوچ مسنگ پرسن کے حوالے سے دسمبر میں لانگ مارچ بھی کیا گیا تھا جس میں بلوچ خواتین نے شرکت کی تھی۔ ان خواتین کے ساتھ اسلام آباد داخلے کے وقت لاٹھی چارج اور گرفتاریوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے کارروائی کرتے ہوئے سب کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

فورم

XS
SM
MD
LG