رسائی کے لنکس

عارف علوی کا دورِ صدارت: 'کوشش کے باوجود عمران خان کو ریلیف نہ دلا سکے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • عارف علوی پاکستان کے 13 ویں صدر کے طور پر سکبدوش ہوں گے
  • عارف علوی کو بہت ذہین، بردبار اور سخت محنت کرنے والا پایا: قمر بشیر
  • صدر علوی عمران خان کی چوائس تھے اور انہی کے زیرِ سایہ کام کیا: منیب فاروق

ڈاکٹر عارف علوی اتوار کو نئے صدرِ پاکستان کی ممکنہ حلف برداری کے ساتھ ہی پاکستان کے 13 صدر کے طور پر سبکدوش ہو جائیں گے۔ آٹھ مارچ کی صبح عارف علوی کو ایوانِ صدر میں مسلح افواج کی جانب سے الوداعی گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔

اگرچہ آئینِ پاکستان میں صدر کا کردار محض علامتی ہے۔ لیکن صدر عارف علوی کے ساڑھے پانچ سالہ دورِ صدارت میں کئی ایسے واقعات ہوئے جو ملک کی تاریخ میں یاد رکھے جانے والے ہیں۔

بعض مبصرین عارف علوی کے بطورِ صدر کردار کو متنازع قرار دیتے ہیں اور ان کے خیال میں عارف علوی صدر ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے زیادہ قریب رہے۔ تاہم بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ عارف علوی نے ایک مشکل دور میں صدارت کا عہدہ بخوبی نبھایا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے دورِ صدارت میں جہاں ان کی جماعت تحریک انصاف پر کڑا وقت رہا اور انہی کے دور میں عمران خان تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر ہوئے بلکہ مختلف مقدمات میں جیل بھی گئے۔ اسی عرصے میں ملک میں انتہائی طاقت ور سمجھی جانے والی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ انہوں نے تعلقات خراب نہیں کیے۔

صحافی اور تجزیہ کار منیب فاروق کہتے ہیں کہ صدر عارف علوی سابق وزیر اعظم عمران خان کی چوائس تھے اور انہی کے زیر سایہ انہوں نے صدرِ مملکت کے طور پر کام کیا۔ لیکن عمران خان کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد ایوان صدر تحریک انصاف کی آماجگاہ بن گیا۔

ان کے بقول ایسی صورتِ حال میں بہت سے غیر آئینی عمل بھی صدرِ مملکت کی جانب سے سامنے آئے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے وہ اقدامات بحیثیت صدرِ مملکت نہیں بلکہ سیاسی صدر کے طور پر اٹھائے۔

منیب فاروق کہتے ہیں کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں جو شخصیات صدرِ مملکت کے عہدوں پر رہی ہیں ان کا جھکاؤ اپنی سیاسی جماعت کی طرف ہی رہا ہے اور وہ بہت کم اپنے فیصلے آزادانہ کر پاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض معاملات میں صدر کا مؤقف بالکل درست تھا جیسے انتخابات کے بروقت انعقاد کا معاملہ جسے بعد ازاں عدالت نے بھی تسلیم کیا۔

صدر عارف علوی کے ساتھ تقریباً 10 ماہ بطورِ پریس سیکریٹری کام کرنے والے قمر بشیر کہتے ہیں کہ عارف علوی کو انہوں نے بہت ذہین، بردبار اور سخت محنت کرنے والا پایا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ عارف علوی میں کمال کا صبر تھا اور وہ ہر کسی کی بات تحمل سے سنتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی بہترین ایڈمنسٹریٹر ہونا تھی اور وہ یہ جانتے تھے کہ اپنی ٹیم میں کسے رکھنا ہے۔

قمر بشیر بتاتے ہیں کہ عارف علوی کے دور میں ہی ایک ایسا واقعہ سامنے آیا جس میں ایوان صدر میں کام کرنے والے ایک سیکریٹری کی خدمات واپس کی گئیں۔

واضح رہے کہ اگست 2023 میں صدرِ مملکت نے ترمیمی بلز کے تنازع پر اپنے سیکریٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کردی تھیں۔

صدر نے یہ خدمات اس تنازع کے بعد واپس کی تھیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ 2023 اور پاکستان آرمی ایکٹ 2023 پر دستخط نہیں کیے۔ البتہ ان کے عملے نے ان کی مرضی اور حکم کو مجروح کیا۔

عارف علوی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ بغیر دستخط شدہ دونوں بل مقررہ وقت کے اندر واپس ارسال کر دیں تاکہ انہیں غیر مؤثر بنایا جا سکے۔

سیاسی طور پر عارف علوی کے بطورِ صدر کردار کاذکر کرتے ہوئے قمر بشیر کا کہنا تھا کہ اس کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آئین میں صدر کا عملی کردار اب انتہائی محدود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت جانے کے بعد پارلیمںٹ کا کردار صدر کے بارے میں کافی مخالفانہ تھا اور ایسے میں جب بھی پارلیمنٹ کی جانب سے کوئی بل پاس کیا جاتا تو اس پر صدر کا ردِعمل سامنے آتا۔

قمر بشیر کے مطابق اس مشکل دور میں صدر نے بڑی ہمت اور بردباری سے اپنے پتے کھیلے۔ انہوں نے اپنے کردار سے اپنی جماعت تحریک انصاف کو بھی ناراض نہیں کیا اور اس میں ان کی سیاسی ذہانت بھی نظر آئی۔

آرمی چیف کی تعیناتی اور صدرِ مملکت کا کردار

قمر بشیر کہتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تعیناتی کے معاملے میں ان کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ صدر مملکت کا عہدہ محدود آئینی کردار رکھنے کے باوجود بھی بڑا اہم عہدہ ہے۔ وہ ایک جانب مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں تو دوسری جانب وہ پارلیمان کے سربراہ ہیں۔ وہ حکومت کے سربراہ ہوتے ہیں، اس کے علاوہ وہ عدلیہ کے بھی سربراہ کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست کے ان تمام ستونوں کے درمیان جو تعلق استوار ہوتا ہے وہ بھی صدر ہی کی بدولت ہو پاتا ہے۔ ان کے خیال میں انسانی غلطیوں کے امکان کے باجود بھی عارف علوی نے بطور صدر یہ کردار بہت اچھی طرح نبھایا ہے۔ ان کی مثبت سوچ، پاکستان سے محبت بلا کسی شک و شبے کےتھی اور وہ ملک کے روشن مستقبل پر یقین رکھنے والے صدر تھے۔

آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق قمر بشیر کہتے ہیں کہ یہ سبھی کو معلوم ہے کہ عمران خان کے جنرل عاصم منیر سے اچھے تعلقات نہیں تھے اور ایسے میں اتحادی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ اپنی جگہ پر تھا۔ ایسے میں صدر کا زمان پارک جا کر عمران خان کو منانے اور یہ باور کرانے میں کہ اس تعیناتی پر کسی قسم کی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے دور رہنا چاہیے، صدر کا ہی کردار تھا۔

انہوں نے کہا کہ کئی لوگوں نے اس پر تنقید کی کہ فوجی سربراہ کی تعیناتی کے لیے انہوں نے سابق وزیرِ اعظم سے کیوں مشورہ کیا؟ لیکن ان کا جواب کافی برجستہ ہوتا تھا کہ آئین یا قانون کی کس کتاب میں انہیں ایسا کرنے سے روکا گیا ہے۔

عارف علوی اور پارلیمان کا تعلق

ملک میں کسی بل کی پارلیمان سے منظوری کے بعد صدر کے دستخط سے ہی وہ قانون کی شکل اختیار کرتا ہے۔

تاہم عارف علوی نے اپنے دور میں پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے منظور کیا گیا نیب قوانین ترمیمی بل واپس کردیا۔ اسی طرح صدر نے کئی بلز پر اپنی رائے دی اور انہیں تبدیل کرنے کو بھی کہا۔

تاہم صدر کی جانب سے ترمیمی بل منظور نہ کیے جانے کے بعد اسے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرلیا گیا اور وہ صدر کے دستخط کے بغیر ہی ملک کا قانون بن گیا۔

بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر عاف علوی نے پارلیمان کی موجودگی کے باوجود درجنوں آرڈیننسز کا اجرا کرکے پارلیمنٹ کی بے توقیری کی۔

تاہم منیب فاروق کے خیال میں آرڈیننس کا اجرا کوئی غیر قانونی یا غیر آئینی کام نہیں۔ جب پارلیمنٹ کا اجلاس نہ چل رہا ہو تو آرڈیننس آ سکتا ہے۔ لیکن اگر جان بوجھ کر پارلیمنٹ کا اجلاس ملتوی کردیا جائے اور پھر صدارتی آرڈیننس لایا جائے تو یہ غلط کام ہے۔ البتہ یہ قانونی طور پر جائز ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ آنے والے صدور ایسے کاموں سے دور رہیں گے۔

منیب فاروق کے بقول عمران خان کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد بھی صدر علوی نے ریاست کے بجائے عمران خان سے بھرپور وفاداری نبھائی۔

ان کا کہنا تھا کہ عارف علوی نے کوشش کی کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو میز پر لایا جائے۔ لیکن عمران خان جس نہج پر چیزوں کو لے گئے تھے اس میں عارف علوی کے لیے کسی ثالث کا کردار ادا کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ انہوں نے جو کیا، غالباً یہی وہ کر سکتے تھے۔

منیب فاروق کے بقول عارف علوی نے اپنی حد تک کوشش ضرور کی کہ وہ عمران خان کو کوئی ریلیف دلوا سکیں لیکن بطورِ صحافی ان کے بقول عمران خان کی غلطی اس قدر بڑی تھی کہ اس کے نقصانات کا احاطہ کرنا عارف علوی کے بس کی بات نہیں تھی۔

تاہم صدر کے سابق سیکریٹری اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ عارف علوی کی اپنی پارٹی کے سربراہ سے وفاداری زیادہ اور آئین اور قانون سے کم رہی۔

قمر بشیر کہتے ہیں کہ اگرچہ صدر کے پاس قانونی مشاورت کے لیے سیکریٹری، قانونی مشیر سمیت پوری ٹیم موجود ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود کسی بھی فیصلہ سازی میں وہ خود الگ سے قانونی معاملات کا جائزہ لیتے تھے اور اس مقصد کے لیے آئینِ پاکستان کی کتاب ان کی دراز میں موجود ہوتی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس

سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ریفرنس بھیجے جانے پر بھی عارف علوی پر کڑی تنقید کی گئی تھی اور ریفرنس کی سماعت کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں یہاں تک کہا تھا کہ صدر نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر بھیجے گئے ریفرنس کو سپریم کورٹ بھیجنے میں اپنا دماغ استعمال نہیں کیا۔

قمر بشیر کے خیال میں وہ معروضی حالات جن میں ریفرنس بھیجا گیا اس میں وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ صدر کے پاس بھی اسے آگے بھیجنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ طے ہے کہ وزیرِ اعظم کی جانب سے اگر کوئی ایڈوائس آئی ہوئی ہو تو صدرکو اس پر عمل درآمد کرنا ہی ہوتا ہے۔

دوسری جانب منیب فاروق کہتے ہیں کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی منشا پر بھیجا گیا۔ لیکن اس پر صدر عارف علوی نے بھی آزادانہ طور پر بطورِ صدر سوچ بچار نہیں کی۔

'عارف علوی نے ایوانِ صدر کو فعال رکھا'

قمر بشیر کہتے ہیں کہ بطور صدر عارف علوی نے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے لیے زیادہ کام کیا۔ خواتین میں بریسٹ کینسر کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک بھرپور مہم ایوانِ صدر سے چلائی گئی۔

وہ کہتے ہیں کہ چوں کہ پاکستانی معاشرے میں بریسٹ کینسر سے متعلق بات کرنے کو ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ایک اجلاس میں علما نے صدر کو بریسٹ کینسر کو اردو میں چھاتی کا کینسر کہنے سے روکا۔ لیکن وہ نہ مانے اور اس مرض کو بیان کرنے میں کسی شرم سے کام نہ لیا۔

ان کے بقول عارف علوی نے اپنی تقاریر میں ببانگ دھل چھاتی کا لفظ استعمال کر کے مسئلے کی نشاندہی کی۔

قمر بشیر کے مطابق عارف علوی نے ایوانِ صدر کے اخراجات کم کرنے کے لیے اسے مکمل طور پر شمسی توانائی پر منتقل کیا اور اس میں حکومت کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ مختلف بیماریوں کا شکار افراد کی معاشرے میں مدد کرنے کے لیے بھی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سطح تک کافی کام کیا۔

انہوں نے کہا کہ صدر اپنی سالگرہ میں بھی ایسے افراد اور بچوں کو مدعو کرتے تھے۔ اسی طرح صدر نے ذاتی دلچسپی کے باعث مینٹل ڈس آرڈر کا شکار افراد سے متعلق قومی ہیلپ لائن قائم کروائی۔ اس سےمتعلق شعور اجاگر کیا اور موبائل فونز ٹونز کے ذریعے کروڑں افراد تک اس بارے میں آگہی کا پیغام پہنچایا گیا۔

فورم

XS
SM
MD
LG