رسائی کے لنکس

فوجی عدالتوں کے فیصلوں کا ریکارڈ پشاور ہائی کورٹ میں پیش


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی سزاؤں کے خلاف دائر اپیلوں پر پشاور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے سماعت کی۔

استغاثہ کی جانب سے دائر درخواست پر پاکستان کی فوج کی جانب سے الیون کور کے نمائندے جب کہ حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل شمائل احمد خان اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل قاضی بابر ارشاد پیش ہوئے۔

استغاثہ کی جانب سے سماعت پر اعتراض کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل شمائل احمد بٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی اس معاملے کی سماعت کر رہی ہے۔ جس پر چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ریمارکس دیے کہ وہ اپنا کام کریں ہم اپنا کام کریں گے۔

پشاور کے الیون کور کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تک 70 کیسز کا ریکارڈ جمع کرایا ہے۔ لیکن وکلا صفائی ریکارڈ دیکھنے نہیں آئے۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ آج بھی 75 افراد کا ریکارڈ لے کر آئے ہیں۔

چیف جسٹس نے فوج کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عوام آپ سے بھاگتے ہیں، یہ ریکارڈ ہمارے پاس جمع کرائیں۔ ابھی 150 افراد کا ریکارڈ ہمارے پاس آیا ہے۔ مجموعی طور پر 200 کیسز ہیں۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل قاضی بابر ارشاد نے عدالتی دائرہ اختیار پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے کیسز سننے کا اختیار ہائی کورٹس کے پاس نہیں ہے۔

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار احمد سیٹھ
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار احمد سیٹھ

چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے عدالتی دائرہ اختیار سے متعلق دلائل تحریری طور پر جمع کرانے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ زندگی رہی تو سات اپریل کو یہ کیس دوبارہ سنیں گے، جس پر ایڈوکیٹ جنرل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اللہ آپ کو زندگی دے۔

پشاور ہائی کورٹ میں لگ بھگ 272 افراد نے فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی سزاؤں اور فیصلوں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کر رکھیں ہیں۔

پاکستان میں 16 دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گرد حملے کے بعد قانون سازی کے ذریعے فوجی عدالتوں کو اختیارات دیے گئے تھے۔ جس کے تحت دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عام شہریوں کے خلاف مقدمات سننے اور سزائیں دینے کا اختیار بھی ان عدالتوں کو دیا گیا تھا۔

بعدازاں ان عدالتوں کے قیام کی مدت میں مزید دو سال کی توسیع کر دی گئی تھی۔ البتہ جنوری 2015 میں قائم کی گئی ان عدالتوں کی مدت جنوری 2019 میں ختم ہو گئی تھی۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض وکلا تنظیموں کی جانب سے فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی گئی تھی۔ پاکستان میں گزشتہ سال سے ہی فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کا معاملہ زیرِ بحث ہے۔ البتہ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کے مابین تاحال اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔

XS
SM
MD
LG