رسائی کے لنکس

موسیقی کی دنیا سے نکل کر مذہب کی دنیا میں آ جانے والے گلوکار


موسیقی کی چکاچوند دنیا سے اٹل اصولوں پر مبنی ’دیار مذہب‘ تک کا سفر،دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کرنے کے مترادف ہے۔ یہ دونوں متضاد پہلو ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو موسیقی اور مذہب مقناطیس کے دوایسے سرے ہیں جو آپس میں کبھی نہیں ملتے۔ لہٰذاشہرت کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر اچانک مذہب کی طرف راغب ہوجانا۔۔۔کسی بھی گلوکار یا موسیقار کے لئے ایسا عمل ہے جو پل صراط پر چلنے سے زیادہ مشکل ہے۔

ایک دنیا سے دوسری دنیا میں بس جانے کا خیال ہی بہت کٹھن ہوتا ہے ، پھر اس پر فیصلہ کرنا اور ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہناانتہائی ضبط کا کام ہے۔۔ لیکن پاکستان کے کچھ سنگرز ایسے بھی ہیں جو موسیقی کی دنیاکے فاتح ہونے کے باوجود اچانک سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مذہب کی طرف مائل ہوگئے مثلاً جنید جمشید، علی حیدر اور شیراز اپل وغیرہ ۔

جنید جمشید
سن 1987ء میں موسیقی کی دنیا میں تازہ ہوا کا جھونکا بن کر آئے۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں سنیما انڈسٹری آخری دموں پر تھی،پرائیویٹ چینلز کا خواب بھی کسی نے شاید نہیں دیکھا تھا صرف پاکستان ٹی وی گھر گھر دیکھا جاتا تھا وہ بھی شام سے نصف شب تک۔ ایسے میں جنید جمشید نے ایک پاپ گروپ ترتیب دیا جس کا نام تھا”وائٹل سائنز“۔اس گروپ نے ٹی وی پر ایک ملی نغمہ ”دل دل پاکستان“ متعارف کرایا جس میں مغربی آلات موسیقی استعمال کئے گئے تھے۔

”دل دل پاکستان“ ایک دوبار ہی ٹی وی اسکرین پر آیا اور اس کے بعد تو گویا دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں دلوں کی آواز بن گیا۔ اس وقت کا شاید ہی کوئی ٹی وی پروگرام، ٹاک شو، یا میوزک پروگرام ایسا ہوگا جس میں اس نغمے کا ذکر نہ ہوتاہو ورنہ شادی بیاہ سے لیکر تک دیگر تمام نجی تقریبات تک میں جیند جمشید اور ان کا ملی نغمہ چھایا رہتا۔ یوم آزادی ، یوم پاکستان اور دیگر قومی دنوں پر تو اس کی دھنیں بجنا لازمی سا بن گیا تھا۔

اس نغمے کی بدولت جنید جمشید موسیقی کی دنیا پر ایسے چھائے کہ اگلی پوری دھائی میں ان کو کوئی جوڑ پیدا نہ ہوسکا۔ ۔۔۔لیکن پھر اچانک ہی جنید کے ذوق نے ”یوٹرن “ لیا۔ کہاں تو وہ کلین شیو اور مغربی طرز کے جدید کپڑوں میں نظر آتے تھے اور کہاں اب وہ لمبی سی داڑھی رکھ کر نعتیہ کلام اور حمد وثناء پڑھتے نظر آنے لگے۔

اور ۔۔آج جب کہ نیا ہزاریہ شروع ہوئے بھی بارہ سال ہونے کو ہیں، جنید ٹی وی اسکرین پر ”مذہبی دانشور“کی حیثیت سے دیکھے جاتے ہیں۔ جنیدنے ایک نئی دنیا سے خود کو روشناس کرالیا ہے ۔ اوروہ تبلیغ کو اپنا نصف العین بناچکے ہیں۔

جنید کا نعتوں اور حمدیہ کلام پر مشتمل پہلا البم ’جلوہ جاناں‘ سن 2005ء میں ریلیز ہوا تھا۔اس کے بعد ’محبوب یزداں‘ 2006 میں اور ’بدر الدجا‘2008 میں اور’بدیع الزماں‘2009 میں ریلیز کیا گیا۔اس دوران جنید جمشید نے اپنا بزنس بھی شروع کیا جس کی شاخیں آج ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں ایک اعلیٰ پہنچان رکھتی ہیں۔

علی حیدر
علی حیدر وہ پاپ سنگر ہیں جنھوں نے 1990ء کی دہائی میں کئی ہٹ گانے گائے۔خاص کر ان کا ایک گانا ”پرانی جینز اور گٹار“ انگنت نوجوانوں کے دل کی آواز بنا۔ لیکن پھر اچانک انھوں نے بھی مغربی طرز کی موسیقی کو خیر باد کہا دیا اور سن 2009 کے آتے آتے وہ بالکل ہی گانا گانا ترک کرچکے تھے۔ اب وہ ثناء خوانی کرنے لگے تھے۔بعد میں انہیں صوفیانہ کلام سے بھی رغبت ہوئی اور آج کل وہ اسی صنف تک محدود ہیں۔

علی حیدر کے اب تک تین حمدیہ البمزمارکیٹ میں آچکے ہیں جن کے نام” مولا دل بدل دے“،” شور ہے محشر کا“ اور” طلوع فکر“۔موسیقی سے کنارہ کشی کا سبب علی حیدر نے یہ بتایا کہ وہ موسیقی سے مطمئن نہیں ہوتے تھے۔

شیراز اپل
پاپ سنگنگ کی دنیا کو ترک کرنے والوں میں نیا اضافہ شیراز اپل کا ہے۔شیراز اپل نے اچانک گانا چھوڑنے کا اعلان کر کے اپنے پرستاروں کو چونکا دیا ۔اس اعلان سے قبل شیراز نے اپنے فیصلے کو اپنی زندگی کا نیا آغاز قرار دیا۔ان کا کہنا ہے کہ مذہب سے لگاوٴ موسیقی کی دنیا سے ’وحشت کا سبب بنا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ فی الوقت یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ مستقبل میں وہ ثنا ء خوانی یا نعت خوانی کریں گے یا نہیں۔

XS
SM
MD
LG