رسائی کے لنکس

امریکہ میں اخباری صنعت بحران کا شکار، میڈیا تنظیموں کا مدد کے لیے ٹرمپ کو خط


رواں ہفتے کے آغاز پر امریکہ کے سب سے بڑی اخباری چین گینیٹ نے مالی بحران دور کرنے کے غرض سے ملازمتوں میں کمی اور ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کا اعلان کیا تھا۔ (فائل فوٹو)
رواں ہفتے کے آغاز پر امریکہ کے سب سے بڑی اخباری چین گینیٹ نے مالی بحران دور کرنے کے غرض سے ملازمتوں میں کمی اور ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کا اعلان کیا تھا۔ (فائل فوٹو)

کرونا وائرس کے سبب اشتہارات سے ہونے والی آمدنی میں غیر معمولی کمی سے امریکہ میں بھی اخباری صنعت مالی بحران کا شکار ہے۔ اس صنعت کی نمائندہ تنظیموں نے حکومت سے ہنگامی بنیاد پر امداد کی اپیل کی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق محصولات کی کمی نے عالمی سطح پر نیوز انڈسٹری کو 'بیمار' کر دیا ہے اور میڈیا ہاؤسز نے ملازمین کو فارغ کرنا شروع کر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکہ میں بھی کئی اخبارات میں ملازمین کو بغیر ادائیگی کام کرنے یا اُنہیں بغیر تنخواہ کے چھٹیوں پر جانے پر زور دیا جا رہا ہے تو کہیں بیشتر ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کر دی گئی ہے۔

اس ضمن میں امریکہ میں سیکڑوں اخبارات پر مشتمل نمائندہ تنظیموں 'نیوز میڈیا الائنس' اور 'امریکن نیوز پیپرز' نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کانگریس کے رہنماؤں کو خطوط لکھے ہیں۔

اخبارات کی نمائندہ تنظیموں نے اپنے خطوط میں کہا ہے کہ ابلاغ کے متعدد اداروں کو اشتہارات سے ہونے والی آمدنی تقریباً ختم ہو گئی ہے جس کے بعد ان کی بقا غیر یقینی ہوتی جا رہی ہے۔

رواں ہفتے کے آغاز پر امریکہ کے سب سے بڑی اخباری چین 'گینیٹ' نے مالی بحران دور کرنے کی غرض سے ملازمتوں میں کمی اور ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اسی طرح ایک اور میڈیا فرم 'لی انٹرپرائزز' نے آئندہ تین ماہ کے دوران 70 سے زیادہ اخبارات کے ملازمین کو بلامعاوضہ چھٹیوں پر چلے جانے پر زور دیا تھا۔

ایک اور مقامی اخبار 'ٹامپا بے ٹائمز' نے پرنٹ ایڈیشنز ہفتے میں صرف دو بار اتوار اور بدھ کو، شائع کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ گھٹی ہوئی آمدنی کو کسی حد تک روکا جاسکے۔

نیو اورلینز کے سب سے بڑے خبر رساں ادارے 'ٹائمز پکیون' اور دی ایڈووکیٹ نے معاشی بحران کے سبب 10 فی صد عملے میں کمی کا اعلان کیا تھا جب کہ 'سی اینڈ جی' نیوز پیپرز نے ڈیٹرائٹ کے علاقے میں اپنے 19 پرنٹ ایڈیشنز کی اشاعت معطل کر دی ہے۔

نیوز میڈیا الائنس کے ڈیوڈ چاورن نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا ہے کہ اگرچہ بہت سارے پبلشروں نے آن لائن ٹریفک اور ڈیجیٹل سبسکربشنز میں اضافے کو تسلیم کیا ہے لیکن یہ کسی بھی طرح اشتہار کی آمدنی میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اخباری صنعت گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل سکڑ رہی ہے جب کہ اسے آج کے ڈیجیٹل دور میں بقا کے لیے سخت جدوجہد کا سامنا ہے۔

کئی اخبارات میں ملازمین کو بغیر ادائیگی کام کرنے یا اُنہیں بغیر تنخواہ کے چھٹیوں پر جانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)
کئی اخبارات میں ملازمین کو بغیر ادائیگی کام کرنے یا اُنہیں بغیر تنخواہ کے چھٹیوں پر جانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ عوام کو اب پہلے سے کہیں زیادہ آزادانہ معلومات کی ضرورت ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کے قارئین میں اضافے کے باوجود، اشتہارات میں کمی آنے کا سبب تشہیری کمپنیوں کی عدم دلچسپی بھی ہے۔

گرتی ہوئی اخباری صنعت کو سہارا دینے کے لیے کچھ بڑی کمپنیاں سامنے آئی ہیں جیسے فیس بک نے کہا ہے کہ وہ نیوز ایجنسیوں کو اس بحران سے نکالنے کا وعدہ کرتا ہے اور فوری طور پر ایک کروڑ ڈالر عطیہ کرنے کا بھی اعلان کر رہا ہے۔

اسی طرح نیشنل جیوگرافک سوسائٹی نے پوری دنیا کے صحافیوں کے لیے ایک ہنگامی فنڈ کا اعلان کیا ہے جس کے تحت صحافیوں کو ایک ہزار ڈالر سے آٹھ ہزار ڈالر تک کی امداد فراہم کی جائے گی۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے چھوٹے بڑے امدادی اداروں نے صحافیوں کو مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک ایسا کوئی اعلان سامنے نہیں آسکا ہے۔

XS
SM
MD
LG