رسائی کے لنکس

ایشلی ہومر: تنزانیہ میں تعلیم کے فروغ کے لیے پرعزم


ہومر کی تنظیم ’ریڈ سوئیٹر پروجیکٹ‘ ایسے اسکولز بناتا ہے جو لڑکوں اور لڑکیوں کو پڑھائی اور زندگی کے دیگر شعبہ جات میں یکساں مواقع دے۔

ایشلی ہومر ’ریڈ سویٹر پروجیکٹ‘ نامی ایک تنظیم کی سربراہ ہیں۔ یہ تنظیم تنزانیہ کے دیہی علاقوں میں بچوں کے لیے تعلیم عام کرنے کی کاوشیں کر رہی ہے۔ یہ تنظیم مقامی آبادی کو نئے سکول بنانے، اساتذہ کی تربیت کرنے اور نصاب بنانے میں مدد دیتے ہیں۔

اس پروجیکٹ کا آغاز 2005ء میں اس وقت ہوا جب ہومر مشرقی افریقہ کے ملک تنزانیہ کے ایک گاؤں مسائی میں انگریزی پڑھانے کے لیے اپنے ملک سے یہاں چلی آئیں۔ گاؤں کے سربراہ نے انہیں بیس ایکڑ زمین دینے کی پیش کش کی تاکہ وہ کمیونٹی کا پہلا سیکنڈری سکول قائم کر سکیں۔ آج اس سکول میں ایک سو چالیس سے زیادہ بچے پڑھتے ہیں۔

آٹھ سال کے بعد، انہوں نے نزدیک ہی کے ایک گاؤں منگیرے میں عطیہ کی گئی پندرہ ایکڑ زمین پر ایک اور سکول کی بنیاد ڈالی۔

سکول تعمیر کرنا چینلج کا صرف ایک حصہ ہے۔ پرائمری تعلیم کے بجائے سیکنڈری سطح پر تعلیم مفت نہیں ہے اور حکومت کی فیس بھی زیادہ ہے۔ اچھے اساتذہ کا فقدان ہے جبکہ طلبہ کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عموما اسکولز میلوں دور ہوتے ہیں جہاں پیدل نہیں جایا جا سکتا۔ اس پروجیکٹ کا مقصد فیس کو کم کرنا اور اساتذہ کی تربیت کے بعد ان کی بھرتیاں کرنا ہے۔

ان علاقوں میں بہت سے بچوں کو اپنے والدین کے ساتھ مل کر کھیتی باڑی اور جانوروں کو چرانے جیسے کام کرنے پڑتے ہیں۔ نتیجتاً تنزانیہ میں 18% تک بچے سیکنڈری اسکول میں داخلہ تو ضرور لیتے ہیں لیکن صرف سات فیصد ہی سکول جا پاتے ہیں۔

لڑکیوں کے اسکول نہ جانے میں چھوٹی عمر میں شادیوں جیسے بہت سے دیگر مسائل بھی آڑے آ جاتے ہیں۔

ہومر کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ایسی تیرہ سالہ بچیاں جو سکول نہیں جاتیں ان کی شادیاں کر دی جاتی ہیں اور چودہ سال کی عمر تک وہ ماں بن چکی ہوتی ہیں۔

جن بچیوں کو خوش قسمتی سے سکول جانے کا موقع مل جاتا ہے انہیں دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ہومر کہتی ہیں کہ اسکولوں میں پڑھنے والی بہت سی بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے واقعات زیادہ تر اسکول انتظامیہ کی جانب سے پیش آتے ہیں۔

ہومر کہتی ہیں کہ ایسے اداروں میں داخلہ لینے والی بچیوں کو اس روایتی سوچ کا بھی نشانہ بننا پڑتا ہے جو عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق نہیں دیتی۔

ہومر کی جانب سے شروع کیے گئے ’ریڈ سوئیٹر پروجیکٹ‘ کی جانب سے ایسے اسکولز بنانے کی کوشش کی گئی ہے جو لڑکوں اور لڑکیوں کو پڑھائی اور دیگر شعبہ جات میں یکساں مواقع دیں۔

ہومر کے دوسرے اسکول ’’منگیری اسکول‘‘ کے پہلے کلاس روم کی بنیاد پچھلے سال مارچ میں رکھی گئی۔ ستمبر میں اس اسکول میں چالیس بچے داخل ہوئے۔ چونکہ اسکول پر کیا گیا رنگ تنزانیہ کے قبیلے مسائی سے وابستہ کیا جاتا ہے، اسی لیے اس قبیلے کی تکریم میں اس پروجیکٹ اور طلبہ کے یونیفارم کا رنگ ’سرخ‘ تجویز کیا گیا۔

گزشتہ سالوں میں ’ریڈ سوئیٹر پروجیکٹ‘ کو مقامی کمیونٹی کی حمایت حاصل رہی ہے جنہوں نے اس مقصد کے لیے زمین اور وسائل مختص کیے اور اس پروجیکٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

ہومر کہتی ہیں کہ یہ تعاون ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس پروجیکٹ میں مقامی گاؤں والوں سے مشورہ کرکے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھ کر ہی وہ کامیابی حاصل کر پائی ہیں۔

ان کے الفاظ میں، ’’ہمارا مقصد یہاں پر کمیونٹی کے ساتھ مل کر ان کی تعلیمی ضروریات کا خیال رکھنا ہے۔ یہ ان کی زمین ہے اور وہ اس کے مالک ہیں۔ وہ اسکولوں کی تعمیر اور ترقی میں شامل رہے ہیں۔ ہمارا کام ان کا کام آسان بنانا ہے‘‘۔

ہومر مانتی ہیں کہ تنزانیہ میں گزرے ان سالوں میں انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بتاتی ہیں کہ تنزانیہ میں ایک سو بیس سے زائد قبیلے ہیں اور ان سب کو تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف مسائل کا سامنا ہے۔

ہومر کہتی ہیں کہ اسکولوں کی تعمیر کرنا اور وہاں پر اساتذہ کو کلاسز میں پڑھاتا دیکھنا ان کے لیے فخر کا مقام ہے۔ جب سکولوں میں کلاس رومز سے آوازیں آتی ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ اگر ’ریڈ سوئیٹر پروجیکٹ‘ نہ ہوتا تو شاید یہاں کے مقامی بچوں کو پڑھنے لکھنے اور بہتر زندگی گزارنے کا موقع نہ ملتا۔
XS
SM
MD
LG