رسائی کے لنکس

وائرس، نسل پرستانہ حملے: ایشیائی امریکی ہیلتھ ورکروں کو دوہری جنگ کا سامنا، رپورٹ


متاثرین احتجاج سے متعلق پوسٹر تیار کرتے ہوئے۔
متاثرین احتجاج سے متعلق پوسٹر تیار کرتے ہوئے۔

امریکہ میں صحت کے شعبے میں خدمات انجام دینے والے ایشیائی ورکروں کو نہ صرف کرونا وائرس کے خلاف جنگ کا سامنا ہے بلکہ بعض مقامات پر نسل پرستی پر مبنی رویوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایسو سی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، نیویارک میں میڈیکل کی ایک سٹوڈنٹ نیٹی جمریورنوانگ نے کرونا سے بچنے کے لیے ویکسین تو لگوا لی ہے، اور وہ ایک مخصوص حفاظتی لباس پہنے رکھتی ہیں لیکن وہ خود کو نسل پرستانہ حملوں سے نہیں بچا سکی ہیں، خاص طور پر اس وقت سے جب یہ بات پھیلی کہ کرونا وائرس پہلی بار چین میں نمودار ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ ذہنی امراض کا سامنا کرنے والے مریضوں نے انہیں نسل پرستی پر مبنی ناموں سے پکارا۔ ایک راہگیر نے تھائی لینڈ میں پیدا ہونے والی اس طالبہ پر یہ کہتے ہوئے جملہ کسا کہ ’ چین واپس چلی جاؤ‘ اور ان حالات میں انہوں نے نیویارک سٹی کے اس ہسپتال کو چھوڑ دیا جہاں وہ تربیت حاصل کر رہی تھیں۔

نیٹی نے بتایا کہ پندرہ فروری کو وہ نیویارک کے مضافات میں سڑک پر جا رہی تھیں کہ ایک شخص ان کے پاس آ کر پکارا ’ چینی وائرس‘ اور ان سے فون چھین لیا اور ان کو سائیڈ واک پر گھسیٹتا گیا۔ انہوں نے بعد ازاں اس واقعے کی اطلاع پولیس کو دی اور اس بارے میں تحقیقات ابھی جاری ہیں۔

نیٹی کا کہنا ہے کہ ایشیا بحرالکاہل خطے سے تعلق رکھنے والے ہیلتھ ورکرز، ان کے بقول، کئی قسم کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کو نہ صرف کووڈ نائنٹین کا سامنا ہے بلکہ وہ نسل پرستی کا بھی شکار ہو رہے ہیں۔ نیٹی، ماونٹ سنائی میں میڈیکل کی طالبہ ہیں۔

ایشیائی امریکیوں اور پیسفک آئی لینڈ کے لوگوں کو کرونا کی عالمی وبا کے دوران ہراساں کیے جانے کے واقعات کا سامنا رہا ہے۔ لیکن جو لوگ صحت کے شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں ان کو نسل پرستی کے اس چیلنج کا بالخصوص سامنا ہے۔

ڈاکٹر مشل لی نیویارک میں ریڈیالوجسٹ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میری کمیونٹی میں ہیلتھ کیئر کے شعبے میں خدمات انجام دینے والوں کو ہیرو سے قربانی کا بکرا بننے تک کا سفر کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے مارچ میں سفید کوٹ میں ملبوس سو ہیلتھ ورکروں کے ساتھ ایک ریلی کا اہتمام کیا تاکہ ایشیائی باشندوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کی حوصلہ شکنی ہو۔

لی یاد کرتی ہیں کہ گزشتہ سال دو مرتبہ ایسا ہوا کہ راہگیروں نے ان پر تھوک دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’'ہم آپ کو وائرس نہیں لگا رہے۔ ہم آپ کی مدد کر رہے ہیں کہ اس وائرس سے جان چھڑائی جا سکے‘'۔

ایشیا اور پسیفک سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکہ کی کل آبادی کا چھ سے اٹھ فیصد ہیں لیکن اعدادوشمار کے وفاقی ادارے کے مطابق، صحت کے شعبے میں کام کرنے والوں میں سے بیس فیصد کا تعلق اس کمیونیٹی سے ہے۔ بارہ سے پندرہ فیصد سرجن، فزیشن یا فزیشن اسسٹنٹ ہیں۔

عالمی وبا سے پہلے، جائزہ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ ایشیا سے تعلق رکھنے والے اکتیس سے پچاس فیصد ڈاکٹروں کو ملازمت کے حصول کے سلسلے میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاں مریضوں نے ان سے علاج کرانے سے انکار کیا۔ سال دوہزار بیس کے ایک مطالعے کے مطابق، یہ شرح سیاہ فام فزیشنز کے ساتھ نسلی امتیاز کی شرح سے کم لیکن ہسپانوی اور سفید فام ڈاکٹروں کی نسبت زیادہ ہے۔ سال دو ہزار بیس میں ہی ایک جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایشیائی پس منظر رکھنے والے طبی عملے سے ان کی نسلی وابستگی کے بارے میں سوال کیا گیا۔

میری لینڈ ریاست میں پیدا ہونے والے کولمبیا یونیورسٹی میں میڈیکل کے طالبعلم ہوئیجانگ ھووئے شیہی نے بھی ایسے کئی واقعات کی نشاندہی کی ہے، جن میں ان کو نسل پرست حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق ایشیائی امریکیوں کی کئی نسلوں کو مستقل غیر ملکی سمجھا گیا ہے اور امریکہ کے اندر ان کو ایک خطرہ سمجھتے ہوئے سلوک روا رکھنے کی ایک تاریخ ہے۔ حکام نے بھی 1870 میں سمال پاکس کی وبا کا ذمہ دار سان فرانسسکو میں چائنا ٹاون کو قرار دیا جس نے بعد ازاں 1882 میں چائنیز ایکسکلوژن ایکٹ (چینیوں کو بے دخل کرنے کے قانون) کے تحت چینی تارکین وطن کو امریکہ آنے سے روکے رکھا اور جاپانی امریکیوں کو حراستی کیمپوں میں جانے پر مجبور کیا حالانکہ ان کے دسیوں ہزاروں رشتہ دار جنگ عظیم دوئم میں امریکی فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے۔

کرونا کی اس عالمی وبا کے دوران امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد بار کووڈ نائنٹین کو چینی وائرس اور دیگر ناموں سے پکارا۔ سرگرم کارکنوں کے مطابق اس عمل نے ایشیائی امریکیوں کے خلاف غصے کو ہوا دی۔

پولیس کی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ سال امریکہ کے چھبیس بڑے شہروں میں ایشیائی امریکیوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں 146 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اس نوعیت کے جرائم میں مجموعی طور پر دو فیصد اضافہ ہوا۔ یہ اعدادوشمار کیلی فورنیا سٹیٹ یونیورسٹی کے سان برناڈینو کے سنٹر فار سٹڈی آف ہیٹ اینڈ ایکسٹریمزم نے فراہم کیے ہیں۔

ایک ایڈووکیسی گروپ ’سٹاپ اے اے پی آئی ہیٹ‘ نے گزشتہ مارچ دو ہزار بیس سے اس سال فروری کے آخر تک ایشئائی امریکیوں کو ہراساں کیے جانے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے 3800 واقعات رپورٹ کیے ۔ اٹلانٹا میں مارچ میں ایک ایشیائی مساج سنٹر پر حملے میں ایک مسلح شخص کا چھ ایشیائی افراد کو گولی مار کر ہلاک کرنے کا واقعہ اس رپورٹ کے بعد کا ہے۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن کے ہسپتال میں انیستھیزیا کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر ایمی ژانگ کہتی ہیں کہ نسل پرستانہ حملوں میں اضافہ وائرس کے حملوں سے کہیں زیادہ خوفناک ہے۔

نیویارک میں ایک فزیشن اسسٹنٹ کا کورس پڑھنے والی طالبہ آئیڈا چن اپنے ساتھ ہر وقت مرچوں کا سپرے رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنی فون کی سیٹنگ تبدیل کی ہے کہ ان کے تمام دوست ان کی لوکیشن کو دیکھ سکتے ہیں اور وہ اکیلے زیادہ باہر بھی نہیں نکلتی ہیں۔ وہ اپنے سر کے گہرے بھورے بالوں کو ایک ہیٹ میں اس طرح ڈھانپ کر چلتی ہیں کہ صرف ڈائی کیے ہوئے بلانڈ بال ہی نظر آ سکیں۔

انہوں نے یہ احتیاطیں تب سے اختیار کیں جب مارچ دو ہزار بیس میں، مین ہیٹن نیویارک میں ایک بائیک سوار نے ان پر جملہ کسا کہ ’میں آپ میں دلچسپی لیتا لیکن میں کرونا وائرس کا شکار نہیں ہونا چاہتا‘۔ اس کے بعد وہ شخص اس وقت تک جملے کستے ہوئے پیچھا کرتا رہا جب تک کہ آئیڈا چن نے ہنگامی مدد کے نمبر پر فون نہیں کیا۔

چن کا آبائی پس منظر چین کا ہے، یہ کہتی ہیں کہ ''میں یہ سوچ کر طب کے شعبے میں آئی تھی کہ میں لوگوں کو بہترین توجہ اور نگہداشت فراہم کروں گی لیکن اس وقت تکلیف ہوتی ہے جب لوگ اس طرح اچھی سوچ اور مروت کے ساتھ جواب نہیں دیتے‘‘۔

طالبہ نیٹی کہتی ہیں کہ میں کچھ دیر کے لیے مایوس ہو گئی تھی کہ آیا لوگ مجھے یہاں ہسپتال میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ نہیں۔ لیکن ان کے بقول جب انہوں نے سوچا کہ ان کے ساتھی ورکروں نے کس طرح ریلی میں ان کا ساتھ دیا، اور ہسپتال کی انتظامیہ نے کس طرح ان کی مدد کی، کس طرح مریضوں نے ان کے کام کو سراہا، یہ سب ان کو ایک امید کی طرف لے گیا۔

نیٹی کے بقول ’’میں اب بھی بہترین امریکہ پر یقین رکھتی ہوں۔‘‘

XS
SM
MD
LG