رسائی کے لنکس

نپولین بونا پارٹ: ہیرو یا ولن، فرانسیسی معاشرہ اب بھی مخمصے کا شکار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

فرانس کی تاریخ ساز شخصیت نپولین بوناپارٹ کی موت کو دو صدیاں مکمل ہونے پر فرانس میں ایک بار پھر یہ بحث جاری ہے کہ قومی تاریخ کی اس اہم شخصیت کو کس انداز میں یاد کیا جائے۔

فرانس کی تاریخ میں نپولین کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جن کے بارے میں معاشرے میں متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔

تاریخ میں ایک ماہر فوجی سپہ سالار کے طور پر شناخت رکھنے والے فرانس کے اس حکمران کو تاریخ میں کیا مقام دیا جائے؟ نپولین بونا پارٹ کی شخصیت کی طرح اس سوال کا جواب بھی سیدھا سادہ نہیں۔

فرانس کا ایک طبقہ جہاں جدید ریاست کے قیام کے لیے نپولین کے اقدامات کا معترف ہے وہیں اس کی شہنشاہیت پسندی (امپیریلزم) اور جنگجوئی کے ناقدین کی بھی طویل فہرست ہے۔

بدھ کو نپولین کی موت کے 200 سال مکمل ہونے پر ان کے مقبرے پر منعقدہ تقریب میں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میخواں نے خاتونِ اول کے ہمراہ شرکت کی۔

صدر میخواں نے تقریب میں شرکت ایسے موقع پر کی جب ناقدین کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ صدر کو ایک ایسے شخص کی یاد منانے سے دور رہنا چاہیے جس نے پہلی جمہوریت کو ختم کر کے اس کی جگہ ایک آمرانہ حکومت قائم کی تھی۔

لیکن اس سے کہیں زیادہ متنازع نپولین کا 1802 میں غلامی کی بحالی کا وہ فیصلہ ہے جو ’بلیک لائیوز میٹر‘ کی تحریک اور فرانس میں نسل پرستی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کے تناظر میں اس وقت زیادہ بڑی وجۂ نزاع بنا ہوا ہے۔

ہیرو یا ولن؟

نپولین کا شمار یورپ کی نمایاں ترین تاریخی شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ ایک ماہر جنرل اور سیاست دان تھا۔

انقلابِ فرانس کی تحریک کے دوران نپولین نے 1789 سے 1799 تک کلیدی کردار ادا کیا۔

سن 1789 میں انقلابِ فرانس کے بعد فرانس میں پہلی جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ تاہم نپولین نے 1799 میں اس کا تختہ اُلٹ دیا اور بعدازاں 1804 میں خود شہنشاہِ فرانس بن گیا۔

ناقدین کے مطابق اس نے فرانس میں جمہوریت قائم کرنے کی کوششوں کو بری طرح کچل دیا۔

نپولین ایک ماہر جنگی سالار تھا۔ اس نے 1793 سے 1815 تک 70 سے زیادہ جنگیں لڑیں جن میں سے اسے صرف آٹھ میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اس نے 23 برس تک اپنی جنگی مہمات جاری رکھیں اور میدانِ جنگ میں اس کی کام یابیوں سے یورپ کی دیگر قوتوں پر فرانس کو یورپ کی ایک برتر قوت بنایا۔

جنگی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ 'نپولین کوڈ' کی صورت میں اس نے کئی اصلاحات بھی نافذ کیں جن میں سے آج بھی کئی فرانس کے نظام اور عام زندگی کا حصہ ہیں۔

تعلیم میں میٹرک کا نظام، سیکنڈری اسکول سسٹم اور حکومتی و سرکاری نوکریوں میں میرٹ کا نظام نپولین نے ہی متعارف کرائے تھے۔

اس لیے بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ فرانسیسی معاشرے کا ایک حصہ ہمیشہ اس کی عظمت کا قائل رہا ہے۔

لیکن 51 برس کی ہنگامہ خیز زندگی گزارنے والے نپولین کی شخصیت کے اسیر ہونے والوں کے ساتھ ساتھ اس پر تنقید کرنے والوں کے پاس بھی بہت سے دلائل ہیں۔

سلطنت کو وسعت دینے کے لیے نپولین نے جو جنگیں کی ان میں لاکھوں انسانوں کی جانیں گئی اور کئی شہر تباہ ہوئے۔

نپولین نے انقلابِ فرانس کے بعد جو قوانین جاری کیے ان میں خواتین کو جائیداد رکھنے اور خرید و فروخت سمیت کئی حقوق سے محروم رکھا گیا تاہم اس کا سب سے متنازع فیصلہ یہ تھا کہ اس نے انقلاب فرانس کے نتیجے میں غلامی پر عائد ہونے والی پابندی کے 10 سال بعد اسے ختم کر دیا۔

نپولین کی جانب سے فرانسیسی نوآبادیات میں غلامی کی بحالی کے بارے میں مؤرخین کا کہنا ہے یہ فیصلہ کیریبیئن یا بحرِ ہند کے خطے میں شکر کی تجارت میں اپنے حریف برطانیہ سے مسابقت کے پیشِ نظر کیا گیا تھا۔

فرانسیسی مؤرخ مٹیلڈ لاریری کے نزدیک اس فیصلے کی 'نسل پرستانہ جہت' بھی تھی۔

امریکی اسکالر مارلین ڈاٹ نے حال ہی میں ’نیویارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں نپولین کو 'فرانس کا سب سے بڑا جابر' اور نسلی برتری کی علامت قرار دیا۔

نپولین کے حوالے سے فرانسیسی معاشرے میں تقسیم اب بھی واضح ہے۔
نپولین کے حوالے سے فرانسیسی معاشرے میں تقسیم اب بھی واضح ہے۔

سیاسی تقسیم

نپولین کے بارے میں انہی تاریخی حقائق کی وجہ سے اس کی موت کے 200 سال مکمل ہونے پر فرانس ایک بار پھر تقسیم ہے کہ اس موقع کو تاریخ کی عظیم یادگار کے طور پر منایا جائے یا فراموش کر دیا جائے۔

دائیں بازو کی قوم پرست لیڈر مرین لی پین نے فرانس انٹر ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نپولین کو کیوں یاد نہ کیا جائے۔ وہ ایک بڑی تاریخی شخصیت ہیں۔

ان کے مطابق نپولین نے فرانس اور دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔

لیکن فرانس میں بائیں بازو کے سیاسی رہنماؤں نے صدر ایمانوئیل میخواں کو نپولین کی 200 ویں برسی کی تقریبات سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا۔

بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما الیکسز کاربیر نے ایک اخبار میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ صدر کو ایک ایسے شخص کی یاد منانے سے دور رہنا چاہیے جس نے پہلی جمہوریت کو ختم کر کے اس کی جگہ ایک آمرانہ حکومت قائم کی تھی۔

نپولین کی موت کو دو صدیاں مکمل ہونے پر سامنے آنے والی یہ بحث نئی نہیں ہے۔ ماضی میں کئی مواقع پر فرانس کے سربراہانِ مملکت نپولین کے حوالے سے آنے والے یادگار مواقع پر نپولین کی یادوں سے فاصلہ رکھتے رہے ہیں۔

سن 2005 میں جب فرانس کی تاریخ میں فیصلہ کن تصور ہونے والی آسٹرالٹز کی جنگ کے 200 برس مکمل ہوئے تھے تو اس وقت کے صدر یاک شیراک اس مناسبت سے منعقد کی گئی تقریبات میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ اس جنگ میں نپولین کی قیادت میں فرانس نے روس کو شکست دی تھی۔

اسی طرح صدر ہولاندے ’واٹر لو‘ کی جنگ کی یاد میں منعقدہ تقریب میں شریک نہیں ہوئے۔ 18جون 1815 کو ہونے والی اس جنگ میں نپولین کو دیگر یورپی قوتوں برطانیہ، جرمنی، بیلجیم اور نیدرلینڈ کی اتحادی فوج سے آخری شکست ہوئی تھی۔

فرانس کے صدر کا مؤقف کیا ہے؟

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق صدر ایمانوئیل میخواں نے نپولین کی موت کی دو صدیاں مکمل ہونے پر اس کی یاد منانے اور اس موقع کا بائیکاٹ کرنے کے مطالبات کے پیشِ نظر درمیان کی راہ نکالی ہے۔

پیر کو فرانسیسی صدر کے ایک معاون نے 'اے ایف پی' کو بتایا تھا کہ یہ برسی کی تقریب ہو گی۔ اس دن کوئی جشن نہیں منایا جائے گا۔ تقریب میں صدر یادگار پر پھول چڑھائیں گے اور تقریر کریں گے۔

صدر میخواں نے امریکہ کی 'بلیک لائیوز میٹر' تحریک کے زیرِ اثر فرانس میں غلاموں کی خرید و فروخت کرنے والی تاریخی شخصیات کے مجسمے گرانے کی حالیہ کوششوں پر تنقید کرتے ہوئے اسے تاریخ کو مٹانے کے مترادف قرار دیا تھا۔

'اے ایف پی' سے گفتگو میں صدر کے معاون کا کہنا تھا کہ ہم تاریخ کا سامنا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تاریخ سے نہ ہی انکاری ہیں اور نہ ہی اس پر نادم۔

مشیر کا کہنا تھا کہ صدر میخواں سمجھتے ہیں ماضی کی شخصیات کو آج کے اخلاقی پیمانوں پر پرکھنا درست نہیں۔ ان کے بقول آج اکیسویں صدی میں کسی کی سوچ ویسی نہیں ہو سکتی جیسی انیسویں صدی کے آغاز پر تھی۔ یہ ہماری تاریخ ہے اور ہم اسے تسلیم کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG