رسائی کے لنکس

ہندو شدت پسند تنظیم نے 'جے این یو' پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی


جواہر لعل نہرو یونیورسٹی حملے پر حکمراں جماعت بی جے پی کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی حملے پر حکمراں جماعت بی جے پی کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں اتوار کو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (JNU) میں طلبہ اور اساتذہ پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری 'ہندو رکھشا دل' نامی تنظیم نے قبول کر لی ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق تنظیم کے رہنما پنکی چوہدری نے منگل کو ایک ویڈیو پیغام میں یونیورسٹی حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

پنکی چوہدری نے حملے کا عذر پیش کرتے ہوئے کہا کہ "یونیورسٹی میں ملک کے خلاف سرگرمیاں ہوتی تھیں جو ہمارے لیے ناقابل برداشت ہیں۔"

خیال رہے کہ نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں اتوار کو کچھ نقاب پوش افراد ڈنڈے لے کر ہجوم کی شکل میں داخل ہوئے تھے۔ ملزمان نے یونیورسٹی میں توڑ پھوڑ کی اور طلبہ اور اساتذہ پر تشدد کیا جس میں لگ بھگ 30 افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس واقعے پر بھارت بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے بھی اس حملے کی خبروں کو شہ سرخیوں میں شامل کیا تھا۔

پنکی چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ سالہا سال سے کچھ لوگ ملک کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ جن میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ بھی شامل تھے۔

خبر رساں ادارے 'ایشین نیوز انٹرنیشنل' کے مطابق حکام پنکی چوہدری کے دعوے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ پولیس سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ملزمان کو شناخت کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔

بھارت کے وزیر برائے اطلاعات و نشریات شری پرکاش جویدکر کا کہنا ہے کہ طلبہ کو تشدد پر اکسانے کے لیے یونیورسٹی حملے کے حوالے سے غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔

اُن کے بقول، حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ یونیورسٹی میں تدریسی عمل بحال ہو۔ حکومت چاہتی ہے کہ طلبہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پُر امن احتجاج کریں۔

خیال رہے کہ جے این یو کے طلبہ ہاسٹل فیسوں اور رجسٹریشن کے حوالے سے تحفظات پر سراپا احتجاج تھے۔

ادھر یونیورسٹی حملے میں تشدد کا نشانہ بننے والی پروفسیر سچارتا سین نے ملزمان کے خلاف کارروائی کے لیے پولیس کو درخواست دے دی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے 70 سے 100 افراد نے یونیورسٹی میں گھس کر طلبہ اور اساتذہ پر تشدد کیا۔

فرانزک ٹیموں نے بھی منگل کو یونیورسٹی کا دورہ کیا۔ اور اتوار کو ہونے والے حملے کے بعد موقع سے شواہد جمع کیے ہیں۔

خیال رہے کہ یونیورسٹی پر حملے کے واقعے پر بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ اپوزیشن جماعت کانگریس اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے واقعے کو پولیس کی نااہلی قرار دیا اور ریاستی اسمبلی کے باہر احتجاج بھی کیا۔

اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں مسلح افراد نے دارالحکومت میں واقع یونیورسٹی میں گھس کر طلبہ اور اساتذہ پر تشدد کیا لیکن حفاظت کے لیے وہاں کوئی پولیس اہلکار موجود نہیں تھا۔

خیال رہے کہ بھارت میں گزشتہ ماہ سے شہریت بل کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس حوالے سے نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ خبروں میں رہی تھی جہاں طلبہ نے اس بل کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے تھے۔

البتہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی پر ہونے والے حملے کے بعد بھارت میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے یونیورسٹی حملے کا ذمہ دار بائیں بازو کی جماعتوں اور تنظیموں کو قرار دیا تھا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے سوشل میڈیا ونگ کے انچارچ امیت مالویا کے پیر کو جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ جو لوگ میونسلپٹی کا الیکشن نہیں جیت سکتے وہ ناکام سیاست دان، ادیب اور بالی وڈ کے ناکام اداکار طلبہ کو نظریات کی بنیاد پر اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG