رسائی کے لنکس

عورت مارچ، جعلی ویڈیو پر سوشل میڈیا پر تنازع


عورت مارچ میں نظر آنے والے چند پوسٹرز
عورت مارچ میں نظر آنے والے چند پوسٹرز

خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے پاکستان میں پچھلے چند برسوں سے آٹھ مارچ کو منعقد کیا جانے والا عورت مارچ مختلف تنازعات کی زد میں ہے۔

اس سال بھی عورت مارچ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری تنقید اس وقت سنجیدہ صورت اختیار کر گئی جب گزشتہ روز میڈیا کے کچھ ارکان کی جانب سے ایک وڈیو ری ٹویٹ کی گئی جسے اسلامی اقدار کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کے کچھ حصوں کو 'توہین مذہب' قرار دیا گیا۔

کچھ ہی دیر بعد عورت مارچ کے منتظمین کی جانب سے سوشل میڈیا پر ہی اصل وڈیو بھی جاری کر دی گئی، اور کہا گیا کہ مارچ میں مذہب کے خلاف کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ البتہ سینکڑوں خواتین کو مختلف پلیٹ فارمز پر اس سنگین الزام پر وضاحتیں پیش کرنی پڑ رہی ہیں۔

جمعے کی صبح انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے عورت مارچ کے خلاف اس سوشل میڈیا مہم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایک بار پھر سے مذہب کی تضحیک کے الزام کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے لیکن اس بار ایسا ان عورتوں کے خلاف کیا گیا ہے، جنہوں نے اپنی صنف کی وجہ سے خود پر ہونے والے حملوں اور ہراسانی کے واقعات کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے‘‘۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اب صرف معذرت سے کام نہیں چلے گا بلکہ ایسے افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے، جویہ الزامات لگانے میں ملوث ہیں‘‘۔

اسلام آباد میں عورت مارچ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس سال ویمن مارچ کے انعقاد سے پہلے ہی انہیں کئی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ مارچ کی انتظامیہ میں شامل ایک خاتون عہدیدار نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چھ ہفتے قبل این او سی کی درخواست دیے جانے کے باوجود ان کو مارچ کے لیے این او سی جاری نہیں کیا گیا تھا۔

اس پر شہری انتظامیہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ این او سی صرف ایک خاص جگہ پر مارچ منعقد کرنے پر جاری نہیں کیا گیا تھا، لیکن سرکاری سیکیورٹی تمام مارچ کے روٹ پر فراہم کی گئی۔

آٹھ مارچ کو اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر جماعت اسلامی کی جانب سے حیا مارچ کا انعقاد بھی کیا گیا جب کہ جامعہ حفصہ کی طالبات کی جانب سے سوشل میڈیا پر پیغام دیے جانے کے باوجود کوئی مارچ نہیں ہوا، البتہ سوشل میڈیا فورمز پر اس مطالبے نے زور ضرور پکڑا کہ عورت مارچ کی شرکا کے خلاف 'فحاشی' پھیلانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا جائے۔

یہ بحث ابھی جاری ہی تھی کہ دس مارچ کو ٹویٹر میں 'سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ' نامی ایک تنظیم کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ عورت مارچ کے تمام منتظمین کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائے اور ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیے جائیں۔

اس بیان میں بھی مارچ کے شرکا پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ویمن مارچ کی آڑ میں ’ہم جنس پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے‘ اور آخر میں عورت مارچ کے خلاف ایک ملک گیر احتجاج کی کال بھی دی گئی۔

اس دوران سوشل میڈیا پر بھی صارفین کی رائے منقسم تھی۔ جہاں بہت سے افراد عورت مارچ کے خلاف بات کر رہے تھے، وہیں مارچ کے حامیوں کی ٹویٹس اور پوسٹس بھی سامنے آتی رہیں۔ خاص کر اس وڈیو کے حوالے سے جو اس وقت بھی زیر بحث ہے کہ آیا اس میں پیش کیا جانے والا مواد اصلی تھا یا اسے تبدیل کیا گیا ہے۔

اسی دوران سائنسی امور کے وفاقی وزیر فواد چوہدی کا ٹوئٹر بیان بھی سامنے آیا ہے جنہوں نے انہوں نے کہا کہ ’’جن افراد نے مارچ کی وڈیو اپنی مرضی سے ایڈٹ کی ہے انہوں نے ایک جرم کا ارتکاب کیا ہے اس لیے ایف آئی اے کو ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے پتہ لگانا چاہئے کہ یہ جعلی وڈیو کس نے بنائی ہے۔‘‘

سوشل میڈیا اور ٹویٹر پر کسی بھی ٹرینڈ کا بننا اور پھر کئی دن تک چلتے رہنا کیا کوئی معمول کا واقعہ ہے؟

ڈیجیٹل رائٹس کے ایک غیر سرکاری ادارے میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی ڈائریکٹر صدف خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی مخصوص سوشل میڈیا ٹرینڈ کیسے بن رہا ہے یہ جاننے کے لیے باقاعدہ تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ کچھ اشاریے ایسے ہیں جن کے ذریعے ٹریںڈ کو با آسانی پہچانا جا سکتا ہے۔

صدف خان کا کہنا تھا کہ اگر بیک وقت ایک ہی پیغام بہت سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے سامنے آئے، ایک ٹرینڈ چند منٹ میں ہزاروں کی تعداد میں چلا جائے یا پھر ٹویٹس یا پوسٹس کے لیے جعلی اکاؤنٹس کا سہارا لیا جا رہا ہو، تو پتہ لگ جاتا ہے کہ ٹرینڈ خود ساختہ ہے یا آہستہ آہستہ معمول کے مطابق بڑھا ہے۔

عورت مارچ کے خلاف سامنے آنے والے ٹرینڈز کے بارے میں بھی ان کا کہنا تھا کہ ان ٹرینڈز کو وثوق سے اورگینک ٹرینڈز یا خود بخود بننے والے ٹرینڈ بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ یہ بھی ہزاروں کی تعداد میں سامنے آئے اور کئی دن سے بلا تعطل جاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات قابل غور ضرور ہے کہ پچھلے برسوں میں ہونے والے عورت مارچ پر صرف ایک مخصوص طبقہ ہی بحث کرتا تھا، لیکن آج اس بارے میں کئی لوگ بات کر رہے ہیں، اور مارچ میں خواتین کی شرکت میں بھی ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    گیتی آرا

    گیتی آرا ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے نیوز اور فیچر سٹوریز تحریر اور پروڈیوس کرتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG