رسائی کے لنکس

سڈنی: پولیس کارروائی میں حملہ آور سمیت تین افراد ہلاک


آسٹریلیا کے وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے کہا ہے کہ سڈنی کے مرکزی کاروباری علاقے کے ’لِنت چوکلیٹ کیفے‘ میں ہونے والے اِس واقعے کے سیاسی محرکات ہو سکتے ہیں

آسٹریلیا کی پولیس نے اِس بات کی تصدیق کی ہے کہ سڈنی کے کیفے پر دن بھر جاری رہنے والے قبضے کے دوران، بشمول یرغمال بنانے والے شخص کے، تین افراد ہلاک ہوئے۔

یہ معاملہ مقامی وقت کے مطابق، رات کے دو بجے اختتام پذیر ہوا، جس میں بھاری اسلحے سے لیس پولیس نے اس دوکان پر چھاپہ مارا، جہاں نیو ساؤتھ ویلز پولیس کمشنر، اینڈریو شفون کے مطابق، واحد مسلح شخص نے 16 گھنٹوں تک 17 افراد کو یرغمال بنائے رکھا۔


نیو ساؤتھ ویلز پولیس کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اکیلے 50برس کے حملہ آور کا کام تھا، جسے اس سے قبل پولیس ذرائع نے ایرانی پناہ گزیں، ہارون مونس کے طور پر شناخت کیا تھا۔

فائرنگ میں، ایک 34 برس کا شخص اور 38 سال کی ایک خاتون بھی ہلاک ہوئیں۔ پولیس کمشنر نے بتایا ہے کہ گولیوں کا تبادلہ اُس وقت ہوا جب پولیس نے کیفے پر چھاپہ مارا، تاہم تین ہلاکتوں کے اسباب کے بارے میں تصدیق نہیں کی۔

یرغمال بنائے جانے والے لوگوں میں سے چار اور ایک پولیس اہل کار زخمی ہیں، جن کا علاج جاری ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اِن کی حالت تشویش ناک نہیں ہے۔

آسٹریلیا کی پولیس نے سڈنی کے کیفے میں یرغمال بنائے گئے المناک واقع کے مشتبہ ملزم کا نام ایرانی پناہ گزیں، ہارون مونس بتایا ہے۔

پولیس کے خیال میں یہی شخص کیفے میں نامعلوم افراد کو یرغمال بنائے ہوئے ہے، جب پیر کی علی الصبح کیفے پر قبضہ کیا گیا۔

نیو ساؤتھ ویلز پولیس کمشنر، اینڈریو شپیون نے صورت ِحال کو ’دہشت گرد حرکت‘ قرار دینے سے انکار کیاہے۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ یہ صورتِ حال کئی روز تک جاری رہ سکتی ہے۔

آسٹریلیا کے وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے کہا ہے کہ سڈنی کے مرکزی کاروباری علاقے کے ’لِنت چوکلیٹ کیفے‘ میں ہونے والے اِس واقعے کے سیاسی محرکات ہو سکتے ہیں۔
ہارون مونس کے لیے بتایا جاتا ہے کہ اُن کا اصل نام منشی بروجردی تھا، جسے اُنھوں نے تبدیل کیا۔

اُن کا نام اُس وقت منظرِ عام پر آیا جب اُنھوں نے افغانستان میں ہلاک ہونے والے آسٹریلیائی فوجیوں کے اہل خانہ کے لیے خط تحریر کرنے کی مہم میں حصہ لیا، جس میں اُن فوجیوں کی سرگرمیوں پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔

ہارون کا نام ایک اور واقعے کے باعث بھی منظر عام پر آیا، جب 2013ء میں اُن کی سابقہ بیوی قتل ہوئیں۔

اس سے قبل کی اطلاعات میں بتایا گیا تھا کہ کیفے میں یرغمال بنائے گئے افراد میں سے پانچ باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے جن میں سے دو کیفے کے ملازم بتائے جاتے ہیں۔

یہ واضح نہیں کہ یہ افراد جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے یا اُنھیں مسلح شخص نے جانے کی اجازت دی۔

پیر کی صبح ایک مسلح شخص نے سڈنی کے وسط میں ایک مصروف کاروباری مرکز مارٹن پلیس میں چاکلیٹ لنٹ کیفے میں موجود متعدد افراد کو یرغمال بنایا۔ جس علاقے میں یہ کیفے واقع ہے وہاں سال کے آخری مہینے میں تعطیلات کے دوران خریداروں کا خاصا رش ہوتا ہے۔

’چاکلیٹ لنٹ کیفے‘ کے ایک ایگزیکٹیو نے بتایا کہ وہاں عملے کے دس افراد اور اندازے کے مطابق تیس گاہک وہاں موجود تھے لیکن پولیس کے مطابق یہ تعداد کم ہے۔

پولیس کے سینکڑوں مسلح اہلکاروں نے ’کیفے‘ کو گھیرے میں لے رکھا ہے جب کہ اس علاقے کی طرف سے آنے والے راستوں کو بند اور قریبی عمارتوں کو حفظ ماتقدم کے طور پر خالی کروا لیا گیا ہے۔

ٹی وی پر براہ راست نشر کیے جانے والے مناظر میں دکھایا گیا ہے کہ کیفے میں موجود لوگ کھڑکیوں کے ساتھ ہاتھ اوپر اٹھائے کھڑے ہیں اور ایک سیاہ رنگ کا پرچم بھی نظر آ رہا ہے جس پر درج تحریر عربی زبان میں ہے۔

پولیس کے مطابق اس علاقے میں تمام دفاتر کے علاوہ سڈنی کا مشہور اوپرا ہاؤس بھی خالی کروا لیا گیا ہے۔

آسٹریلیا کے وزیراعظم ٹونی ایبٹ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ تاحال اس واقعے میں ملوث عناصر اور ان کے عزائم کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کا مقصد لوگوں کو ہراساں کرنا ہوتا ہے۔ انھوں نے آسٹریلوی عوام پر زور دیا کہ وہ اپنے معمولات جاری رکھیں۔

وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی سے بھی ملاقات کی اور صورتحال کو تشویشناک قرار دیا۔

نیو ساؤتھ ویلز پولیس کے کمشنر اینڈریو سائیپون نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ اس بات کا تعین کیا جا رہا ہے کہ مسلح شخص کی طرف سے لوگوں کو یرغمال بنانے کا مقصد اور ارادہ کیا ہو سکتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس صورت حال کو فی الحال دہشت گردی کے عمل یا کارروائی کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا ہے۔

پولیس اور اغوا کار کے درمیان رابطہ قائم ہوا۔ حکام کے مطابق کیفے میں موجود کسی شخص کو نقصان نہیں پہنچا۔

پولیس نے لوگوں سے کہا کہ متاثرہ علاقے میں جانے سے گریز کریں اور قریبی علاقوں میں آباد افراد کو ہدایت کی کہ وہ کھڑکیوں کے قریب نا جائیں۔

XS
SM
MD
LG