رسائی کے لنکس

شعبہ صحت میں اصلاحات اور لوگوں میں آگاہی اشد ضروری


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسپتال کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ ہنگامی حالت میں زچگی سمیت کسی کو بھی کوئی بھی طبی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

پاکستان میں صحت کے شعبے کی غیر تسلی بخش صورت حال کے باعث مریضوں کو درپیش مشکلات کا تذکرہ اور اس پر حکومتی عہدیداروں کی اشک شوئی دیکھنے میں آتی رہتی ہے۔

لیکن رواں ماہ ملک کے سب سے منظم تصور کیے جانے والے شہر اور وفاقی دارالحکومت میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے نہ صرف دنیا میں مردہ بچوں کی سب سے زیادہ شرح پیدائش والے اولین ملکوں میں شمار ہونے والے پاکستان کے شعبۂ صحت میں ناگزیر اصلاحات کی ضرورت واضح ہوتی ہے بلکہ لوگوں میں شعور و آگاہی کی شدید ضرورت بھی سامنے آتی ہے۔

اسلام آباد کے دوسرے بڑے سرکاری اسپتال 'پولی کلینک' میں ایک حاملہ خاتون درد زہ کے ساتھ پہنچیں لیکن مبینہ طور پر طبی عملے نے یہ کہہ کر انھیں طبی سہولت فراہم کرنے سے انکار کر دیا کہ چوںکہ وہ حمل کے دوران اس اسپتال کے شعبہ زچہ و بچہ میں رجسٹرڈ نہیں ہوئیں لہذا پالیسی کے مطابق انھیں زچگی کی سہولت نہیں دی جا سکتی۔

خاتون کو ان کا شوہر قریب ہی ایک نجی اسپتال لے گیا جہاں انھوں نے ایک مردہ بچے کو جنم دیا۔

خاتون کے شوہر نے پولی کلینک کے اس رویے کے خلاف پولیس اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن میں شکایت درج کرا دی ہے جب کہ اسپتال انتظامیہ نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔

اسپتال کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ ہنگامی حالت میں زچگی سمیت کسی کو بھی کوئی بھی طبی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

لیکن مذکورہ پالیسی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ چونکہ دوران حمل کسی بھی خاتون کے باقاعدگی سے طبی تجزیے کیے جاتے ہیں جن کی بنا پر ڈاکٹر کو حمل اور زچگی کی مشکلات کا اندازہ رہتا ہے اس لیے لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ حمل کے بعد معالج سے مشورے کے لیے آتے رہیں۔

جس مقصد کے تحت یہ پالیسی وضع کی گئی وہ تو بظاہر درست ہے، لیکن اس سے یہ امر سامنے آتا ہے کہ ایسی پالیسیوں کو رائج کرنے کے بعد اس کی بھرپور آگاہی مہم چلایا جانا بھی اشد ضروری ہے۔

گزشتہ سال طبی جریدے "دی لانسٹ" کی مطالعاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سال 2015ء میں مردہ بچوں کی پیدائش کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ریکارڈ کی گئی۔

پاکستان میں یہ شرح ہر ایک ہزار بچوں میں 43.1 بتائی گئی جو کہ کئی پسماندہ افریقی ملکوں کے مقابلے میں بھی زیادہ تھی۔

طبی ماہرین یہ زور دیتے آئے ہیں کہ طبی مراکز میں خاص طور پر زچگی کے لیے مناسب سہولت اور آلات کی موجودگی کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ دائیوں کی تعداد بڑھانے کی بھی ضرورت ہے جب کہ لوگوں اس بارے میں شعور اجاگر کرنا بھی بہت اہم ہے۔

ماں اور بچے کی صحت سے متعلق سرگرم کارکنوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ لوگوں کو یہ بتایا جانا بہت ضروری ہے کہ حاملہ خاتون کو باقاعدگی سے معالج سے مشورہ کرنا چاہیے تاکہ زچگی کے وقت کی پیچیدگیوں سے بچنے میں مدد مل سکے۔

XS
SM
MD
LG