رسائی کے لنکس

الظواہری کے بعد القاعدہ کی جانشینی کے طریقہ کار کی آزمائش


انٹیل سینٹر کے ذریعہ حاصل کردہ ویڈیو سے تصویر میں القاعدہ کے اعلیٰ لیفٹیننٹ اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری کو دکھایا گیا ہے
انٹیل سینٹر کے ذریعہ حاصل کردہ ویڈیو سے تصویر میں القاعدہ کے اعلیٰ لیفٹیننٹ اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری کو دکھایا گیا ہے

امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت ایک طرف تو دہشت گرد گروپ کے عزم اور یکجہتی کا امتحان ہونے کا امکان ہے اور دوسری جانب اس سے ممکنہ طور پر طویل عرصے سے تیار کیے گئے جانشینی کے منصوبوں پر دباؤ بھی پڑے گا کیوںکہ بظاہر یہ دنیا کا سب سے بڑا جہادی خطرہ ہونے کی پوزیشن میں تھا۔

حالیہ انٹیلی جنس جائزوں نے خبردار کیا تھا کہ القاعدہ دہشت گرد تنظیم اپنی قیادت میں نسبتاً استحکام کے دور سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور یہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کا بھی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ مزید یہ کہ القاعدہ کی قیادت ماضی کے مقابلے میں زیادہ آزادانہ طور پر بات چیت کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں گزشتہ ماہ خبر دار کیا تھا کہ القاعدہ اپنے حریف، اسلامک اسٹیٹ یعنی داعش کے مقابلے میں "بالآخر براہ راست خطرے کا زیادہ بڑا ذریعہ بن سکتی ہے"۔

تاہم انسداد دہشت گردی کے سابق عہدیداروں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگرچہ القاعدہ نے افغانستان میں اپنی نئی پائی جانے والی آزادی کو بھی اپنے درجہ بندی اور جانشینی کے سلسلے کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا لیکن اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جغرافیائی خدشات کے پیش نظر ان منصوبوں کو کس حد تک عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے، کیونکہ القاعدہ سے وابست افریقی گروپوں کا ا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔

مغربی انسداد دہشت گردی کے ایک سابق اہلکار نے حال ہی میں انٹیلی جنس کے جائزوں پر بات کرنے کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پروائس آف امریکہ کو بتایا، "یہ القاعدہ کے لیے امتحان ہے۔"

اس سلسلے میں اہلکار نے خاص طور ظواہری کے دیرینہ وارث سیف العدیل کی حیثیت کے بارے میں دنیا بھر میں متعدد انٹیلی جنس ایجنسیوں کے خدشات کا حوالہ دیا۔

القاعدہ اور ایران

"وہ ایران میں ہے۔ کیا ایرانی اسے جانے دیتے ہیں؟" سابق اہلکار نے سیف العدیل کے حوالے سے سوال اٹھایا۔ "سونے کے پنجرے میں پھنس کر القاعدہ کا لیڈر بننا مشکل ہے۔"

القاعدہ کے نمبر تین، دہشت گرد گروپ کے جنرل منیجر اور اس کے میڈیا آپریشنز کے سربراہ عبدالرحمن المغریبی کے بارے میں بھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ القاعدہ کے کئی نچلے درجے کے عہدیداروں کے ساتھ ایران میں ہے۔

اور یہ صرف العدیل اور المغربی نہیں ہیں جو ایران میں مقیم ہی٘۔ تہران میں القاعدہ کے عہدیداروں کے پھیلاؤ نے ایک بار سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو ایران پر القاعدہ کا نیا آپریشنل ہیڈکوارٹر بننے کا الزام لگانے پر مجبور کیا تھا۔

تاہم، دیگر امریکی انٹیلی جنس اور سفارتی حکام، اپنے جائزوں میں زیادہ محتاط رہے ہیں۔ انہوں نے تہران اور القاعدہ کے درمیان تعلقات کو سہولت کے طور پر بیان کیا ہے، اور اسے اکثر تجارتی لین دین کی نوعیت سے دیکھا ہے۔

بہر حال، بعض تجزیہ کار ایران سے تعلق کو ایک مسئلہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔

اس ضمن میں واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے جہاد پر تحقیق کرنے والے ماہر ماہرہارون زیلن کہتے ہیں کہ "اس سے مخمصے پیدا ہوتے ہیں،" وہ اس سلسلے میں قانونی حیثیت یا ایرانی اثر و رسوخ کے متعلق سوالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

القاعدہ سے وابستہ افریقی گروہوں کا عروج

اسی طرح اگر القاعدہ ظواہری کے جان نشین کے طور پر القاعدہ ان دی اسلامک مغرب کے یزید میبرک اور القاعدہ کے صومالی الحاق الشباب کے احمد دیری کی طرف رخ کرتا ہے تو اس معاملے پر بھی ممکنہ چیلنجز ہوں گے۔

خفیہ معلومات کے مطابق لقاعدہ نے ظواہری کے پیچھے جانشینی کی مضبوط لائن تجویز کر رکھی ہے۔ اقوام متحہدہ کی ایک رپورٹ، جس کے مطابق پہلے نمبر پر ۔ سیف العدل، دوسرے پر عبدالرحمن المغربی ، تیسرے پر یزید ممبرک ہیں جن کا تعلق اسلامک مغرب میں القاعدہ گروپ سے اور چوتھے پر احمد دیری (الشباب) شامل ہیں۔

زیلن نے وی او اے کو بتایا کہ "اس بات کی مثال نہیں ملتی کہ پہلے کبھی سینئر قیادت افغانستان، پاکستان خطے کی تاریخی پناہ گاہوں سے افریقہ کے مختلف حصوں میں منتقل ہو ئی ہو۔"

انہوں نے کہا کہ "ان میں سے بہت سے گروہوں نے اپنی مقامی شورشوں یا علاقائی تنازعات پر توجہ مرکوز کی ہے۔"


تاہم ایک طویل عرصے سے مقامی یا علاقائی توجہ کے باوجود ان افریقی ملحقہ گروپوں کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران، اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی طرف سے مشترکہ انٹیلی جنس نے متنبہ کیا کہ مالی میں اے کیو آئی ایم گروپ القاعدہ سے وابستہ افراد کے لیے لاجسٹکس کا مرکز بن چکا ہے۔ اس گروپ نے دیگر عسکریت پسند گروپوں کو سپلائی کرنے اور ممکنہ طور پر اثر انداز ہونے کے طریقے بھی تلاش کر لیے ہیں۔

الشباب گروپ کا عروج ا س سے بھی زیادہ نمایا ں رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رکن ریاست نے خبردار کیا ہے کہ اس گروپ نے الحاق سے فائدہ اٹھانے والے گروپ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس نے القاعدہ کی بنیادی قیادت کی مالی مدد بھی کی ہے۔

ایک نئی خلافت؟

امریکی فوجی اور انٹیلی جنس حکام نے خبردار کیا ہے کہ القاعدہ سے منسلک صومالی گروپ کے اور بھی بڑے عزائم ہیں۔ اس گروپ کے اندر مزید علاقوں کے حصول اور مغربی اہداف کو نشانہ بنانے کی بڑھتی ہوئی خواہش پائی جاتی ہے۔

اس موضوع پر بات کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی فرم ویلنز گلوبل کے تجزیہ کار اور سی ای او ڈیویڈ گارٹنسٹین-راس نے حال ہی میں وائس آف امریکہ کو بتایا " کہ ان کے خیال میں یہ امکان ہے کہ افریقہ القاعدہ کی جانب سے اماراتی طرز کے اگلے تجربے کا گھر ہو گا کیونکہ وہا ں کمزور ریاستوں اور مایوس آبادیوں کے ساتھ افریقہ میں مضبوط عسکریت پسند تحریکوں کا پھیلاؤ ہے اور لوگ متبادل راستوں کے تیار رہتے ہیں۔

اسامہ بن لادن کے گھر سے ملنے والے خطوط میں کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:39 0:00

پھر بھی، گارٹنسٹین راس نے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی موت سے قبل بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک مضبوط، زیادہ ممتاز افریقی الحاق القاعدہ کی بنیادی قیادت کا گھر نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ القاعدہ کا رہنمائی کا نظام روایتی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم جیسا نہیں ہے۔ "اس کے لیے مثالی رجحان حکمت عملی کی مرکزیت اور عملی اقدامات کی غیر مرکزیت ہے۔

ظواہری کی میراث

امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے پیر کو کہا کہ القاعدہ کے لیے ظواہری کی موت ایک اہم دھچکا ہے اور اس سے گروپ کی امریکی سرزمین کے خلاف کارروائی کرنے کی صلاحیت میں کمی آئے گی۔

لیکن کچھ تجزیہ کار اور سابق عہدیدار اس معاملے پر محتاط ہیں۔ امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کی فیلو، کیتھرین زیمرمین کہتی ہیں کہ ظواہری کی موت کی القاعدہ کا خاتمہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں کے لیے اس کی عادتیں غیر متاثر کن ہوں گی لیکن ظواہری نے تنظیم کو اس کے بانی، اسامہ بن لادن کی موت اور اسلامک اسٹیٹ یعنی داعش کے چیلنج کے پیش نظر کامیابی سے آگے بڑھایا۔

کیا افغانستان میں دہشت گرد تنظیمیں دوبارہ منظم ہو رہی ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:42 0:00

دوسرے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ القاعدہ اگرچہ مرکزکے گرد منڈلانے والا گروپ نہیں رہا اور اپنے سے وابستہ افراد پر انحصار کرتا ہے، پھر بھی یہ اب بھی پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔

تاہم، دوسری طرف وہ لوگ بھی ہیں جو اس تجزیے سے متفق نہیں ہیں۔

انسداد دہشت گردی کے ایک سابق مغربی اہلکار نے محتاط انداز اپناتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان سے متعلق یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ کوئی بہت متاثر کن رہنما نہیں تھے نہ وہ بہت متحرک رہنما تھے۔

اہلکار نے کہا، "اگر آپ اس نظریہ کو مانتے ہیں کہ ظواہری ایک موثر رہنما نہیں تھا، تو پھر زیادہ متاثر کن رہنما کی طرف سے یہ عہدہ سنبھالنے کا امکان باقی رہتا ہے۔"

XS
SM
MD
LG