رسائی کے لنکس

امریکی خفیہ ادارے افغانستان میں القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری تک کیسے پہنچے؟


ایمن الظواہری القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے بعد شدت پسند تنظیم کے اہم ترین رہنما تھے۔ (فائل فوٹو)
ایمن الظواہری القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے بعد شدت پسند تنظیم کے اہم ترین رہنما تھے۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کی جانب سے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں کی گئی ایک کارروائی میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کو اس شدت پسند تنظیم کے لیے اسامہ بن لادن کی موت کے بعد سب سے بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے صحافیوں کو اس آپریشن کے حوالے سے آگاہ کیا کہ ایمن الظواہری کئی برس سے چھپ رہے تھے۔ ان کو تلاش اور ہلاک کرنے کے آپریشن میں انسدادِ دہشت گردی اور خفیہ اداروں کو کامیابی محتاط انداز میں صبر اور مسلسل کام کرنے سے حاصل ہوئی ہے۔

ایمن الظواہری کی ہلاکت سے قبل تک یہ افواہیں گردش کرتی رہی ہیں کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقے یا افغانستان میں کہیں موجود ہیں۔

’رائٹرز‘ کے مطابق حکام نے امریکہ کے حالیہ آپریشن کی معلومات نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتاتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے پاس کئی برس سے اس نیٹ ورک سے متعلق معلومات موجود تھیں جو ایمن الظواہری کی معاونت اور حمایت کر رہا تھا۔ جب کہ گزشتہ برس افغانستان سے امریکہ سمیت دیگر ممالک کی افواج کے انخلا کے بعد القاعدہ کے ملک میں موجودگی کی نگرانی کر رہے تھے۔

حکام کا مزید کہنا تھا کہ رواں برس حکام نے نشان دہی کی تھی کہ ایمن الظواہری کی اہلیہ، ان کی بیٹی اور بیٹی کے بچے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک سیف ہاؤس میں موجود ہیں۔ بعد ازاں حکام نے یہ بھی تصدیق کی کہ ایمن الظواہری بھی اسی خفیہ مقام پر موجود ہیں جہاں ان کے اہلِ خانہ رہ رہے ہیں۔

مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خفیہ اداروں کے حکام نے رواں برس کئی ماہ ان معلومات کی تصدیق پر لگائے کہ انہوں نے کابل کے سیف ہاؤس میں جس شخص کی نشان دہی کی ہے وہ القاعدہ کے اہم ترین رہنما ایمن الظواہری ہی ہیں۔

رواں برس اپریل میں خفیہ اداروں کے حکام نے بائیڈن ایڈمنسٹریشن کی اعلیٰ شخصیات کو اس حوالے سے بریفنگ دی۔ بعد ازاں امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سیلوان نے صدر جوبائیڈن کو ان تفصیلات سے آگاہ کیا۔

’رائٹرز‘ کے مطابق حکام کا کہنا تھا کہ خفیہ ادارے آزاد ذرائع سے ملنے والی ایسی تفصیلات کے حصول کے لیے ایک طریقۂ کار بنانے میں کامیاب ہوئے جس کی مدد سے آپریشن کے لیے درکار معلومات دستیاب ہوں۔

حکام نے مزید کہا کہ ایمن الظواہری جب کابل میں سیف ہاؤس منتقل ہوئے تھے تو اس وقت خفیہ اداروں کے حکام کو اس کی معلومات نہیں تھیں۔ البتہ بعد میں ان کو اس سیف ہاؤس کے بالکونی میں دیکھا گیا جب کہ کئی بار ان کو اس مقام پر دیکھ کر تصدیق کی گئی اور امریکہ کے آپریشن میں وہ اسی سیف ہاؤس میں مارے گئے۔

آپریشن کے حوالے سے حکام مزید بتاتے ہیں کہ خفیہ اداروں نے اس سیف ہاؤس کی تعمیر اور نوعیت کے حوالے سے بھی تحقیق کی تھی جب کہ اس بات کی بھی تصدیق کی گئی تھی کہ اس عمارت میں کتنے مکین ہیں تاکہ امریکہ باعتماد انداز میں ایمن الظواہری کے خلاف آپریشن کر سکے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ کارروائی میں عمارت مکمل منہدم نہ ہو جب کہ ایمن الظواہری کے خاندان کے افراد کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کا کم سے کم نقصان ہو۔

حالیہ ہفتوں میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اعلیٰ مشیروں اور کابینہ کے ارکان کے ساتھ اجلاسوں میں خفیہ معلومات کا تجزیہ اور اس کے بعد مؤثر انداز میں اقدامات تجویز کرنے کا کہا تھا۔

گزشتہ ماہ یکم جولائی کو وائٹ ہاؤس میں جو بائیڈن، ان کی کابینہ کے ارکان اور خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر ولیم برنس کو مجوزہ آپریشن سے متعلق بریفنگ دی گئی تھی۔

’رائٹرز‘ کے مطابق جو بائیڈن نے اس بریفنگ میں تفصیلی طور پر سوالات کیے تھے امریکہ کے اداروں کے پاس اس حوالے سے کیا معلومات موجود ہیں اور یہ معلومات کس طرح حاصل کی گئی ہیں۔

اس بریفنگ میں خفیہ اداروں کی جانب سے ایمن الظواہری کے کابل میں سیف ہاؤس کا ایک ماڈل بھی پیش کیا گیا تھا جس کا تفصیلی طور پر جائزہ لیا گیا۔

حکام کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن نے آپریشن کے دوران موسم کے حالات، روشنی، عمارت یا سیف ہاؤس کی تعمیر میں استعمال ہونے والے مواد سمیت ان تمام امور پر سوالات کیے جو امریکہ کے اس آپریشن پر اثر انداز ہو سکتے تھے۔

جو بائیڈن نے کابل میں حملے کے اثرات کا تجزیہ کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔

حکام کے مطابق مختلف مواقع پر وکلا نے بھی خفیہ اداروں کی معلومات کا تجزیہ کیا اور تصدیق کی کہ ایمن الظواہری کو ہدف بنانا قانونی طور پر درست ہے کیوں کہ وہ القاعدہ کے سربراہ کے طور پر دہشت گرد تنظیم کی رہنمائی کر رہے ہیں۔

کابل میں آپریشن کے حوالے سے حکام کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے 25 جولائی کو جو بائیڈن نے کابینہ کے اہم ارکان کے ہمراہ آپریشن کے حوالے سے حتمی بریفنگ لی اور اس اجلاس میں ایمن الظواہری کی ممکنہ ہلاکت کے بعد امریکہ کے طالبان سے تعلقات پر پڑنے والے اثرات سمیت دیگر امور پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔

اس اجلاس کے بعد صدر جو بائیڈن نے کابل میں فضائی کارروائی کی اجازت اس شرط پر دی کہ اس میں عام شہریوں کا کم سے کم جانی نقصان ہوگا۔

امریکی صدر کی منظوری ملنے کے بعد کابل میں اس سیف ہاؤس میں ڈرون حملہ کیا گیا اور اس فضائی کارروائی میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری ہلاک ہوئے۔

بعد ازاں صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں خصوصی خطاب کے دوران اعلان کیا کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو افغانستان کے اندر ہونے والے ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔

جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ایمن الظواہری کینیا سے لے کر افغانستان تک امریکہ کے عوام، اس کے سفارت کاروں ، فوجی اہلکاروں اور مفادات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں شامل رہے تھے۔

امریکی صدر نے تصدیق کی کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے افغانستان میں خصوصی ڈرون آپریشن کی منظوری دی تھی۔

وائس آف امریکہ کے اسلام آباد میں نمائندے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں ڈرون حملے کی مذمت کی ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق وجہ کچھ بھی ہو، اس طرح کا حملہ بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ساتھ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

XS
SM
MD
LG