رسائی کے لنکس

عدالت کے حکم پر آزربائیجان میں صحافی خدیجہ اسماعیلووا رہا


اسماعیلووا کو پانچ دسمبر 2014ء میں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اُن پر توہین کے الزامات ہیں، جنھیں بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروپوں نے ’’سیاسی محرکات‘‘ قرار دیا ہے

ملک کی عدالتِ عظمیٰ کے احکامات پر بدھ کے روز آزربائیجان میں ریڈیو فری یورپ کی صحافی خدیجہ اسماعیلووا کو رہا کر دیا گیا۔

اسماعیلووا ایوارڈ یافتہ تفتیشی نمائندہ ہیں جنھوں نے صدر الہام علیوف کے خاندان کے بے تحاشہ اثاثوں کے بارے میں تفتیشی رپورٹ کے نتائج شائع کیے تھے۔ اُنھوں نے ٹیکس چوری اور اختیارات کے ناجائز استعال کے الزامات پر سنہ 2015 میں سات برس جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔

آزربائیجان کی صحافی خدیجہ اسماعیلووا رہا
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:24 0:00

عدالت عظمیٰ نے بدھ کے روز اپنے حکم نامے میں اُن کی سزا میں کٹوتی کرکے ساڑھے تین برس کر دی ہے۔ اُنھیں اجازت دی گئی ہے کہ وہ یہ سزا اپنے گھر نظربند رہ کر پوری کریں۔

اسماعیلووا کو پانچ دسمبر 2014ء میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اُن پر توہین کے الزامات ہیں، جنھیں بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروپوں نے ’’سیاسی محرکات‘‘ قرار دیا ہے۔

اُن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے اپنے سابق ساتھی کو خودکشی کی ترغیب دی، جن الزامات کو الزام لگانے والے نے بعدازاں واپس لے لیا تھا۔ دریں اثنا، اُن کے خلاف دیگر الزامات لگائے گئے، جن میں ٹیکس چوری، ناجائز کاروباری حرفتیں اور اختیارات کا ناجائز استعمال۔

اس ہفتے کے اوائل میں امریکی سینیٹر جان مکین نے کہا کہ اسماعیلووا کی گرفتاری آذربائیجان میں اصلاحات کی ضرورت کی علامت کی غماز ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس کا امریکہ کے آذربائیجان کے ساتھ تعلقات پر اثرپڑے گا۔

وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں مکین نے کہا کہ ’’اگر وہ اُن پر مظالم جاری رکھتے ہیں، تو پھر میں حکومت آزربائیجان کے خلاف قدم اٹھانے کی حمایت کروں گا، جس میں خاص طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ نمایاں ہے‘‘۔

بقول اُن کے ’’اس قسم کا طرز عمل، ایک بے گناہ پر ظلم و ستم کیا جانا جو آزادی صحافت کے بنیادی حق کا استعمال کر رہی ہیں، اُسے نہ صرف نظرانداز نہیں کیا جائے گا، بلکہ ہمیں خصوصی اقدام پر مجبور کیا جا رہا ہے‘‘۔

XS
SM
MD
LG