رسائی کے لنکس

شاعرہ کی مبینہ جبری گمشدگی: 'بلوچ خواتین کے خلاف یہ کارروائیاں نئی ہیں'


خاتون کی بیٹی نے دعویٰ کیا کہ اہلکار میری والدہ کو اپنے ساتھ لے گئے ، اہلکار لیپ ٹاپ اور موبائل وغیرہ بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ـ(فائل فوٹو)
خاتون کی بیٹی نے دعویٰ کیا کہ اہلکار میری والدہ کو اپنے ساتھ لے گئے ، اہلکار لیپ ٹاپ اور موبائل وغیرہ بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ـ(فائل فوٹو)

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون شاعرہ حبیبہ پیر جان کو کراچی سے مبینہ طور پر لاپتاکیے جانے کی اطلاعات ہیں۔

سوشل میڈیا پر زیرگردش رپورٹس کے مطابق مبینہ طور پر لاپتا کی جانے والی خاتون بلوچ شاعرہ ہیں۔حبیبہ پیر جان کی صاحبزادی حنا نے وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضیٰ زہری سے گفتگو میں اپنی والدہ کو لاپتا کیے جانے کی تصدیق کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ کا تعلق بلوچستان کے ضلع تربت کی تحصیل تمپ کے علاقے نظرآباد سے ہے۔ تاہم وہ کراچی کے علاقے گلشن مزدور میں مقیم ہیں۔

حنانے الزام لگایا کہ ان کی والدہ کو بدھ کی شب گھر سے اغوا کیا۔ ان کے بقول، " کچھ لوگوں نے ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، جب میں نے کھڑکی سے دیکھا تو چند گاڑیاں اور رینجرز اہلکار موجود تھے۔ جب والدہ نے دروازہ کھولا تو اہلکار انہیں ایک طرف لے گئے اور پوچھ گچھ کی۔''

حنا نے دعویٰ کیا کہ'' رات کی تاریکی میں گھر آنے والے اہلکار لیپ ٹاپ اور موبائل وغیرہ بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔''

قانون نافذ کرنے والے اداروں یا حکام کی جانب سے اب تک اس واقعے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب سینئر صحافی حامد میر نے بھی اس معاملے پر ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ایک بلوچ شاعرہ کو گھر میں گھس کر اٹھایا گیا ہے۔

ان کے بقول روزانہ آئین کی دھجیاں بکھیر کر شہریوں کو لاپتا کیا جارہا ہے لیکن اس معاملے پر عدلیہ کو ازخود نوٹس لینے کی توفیق نہیں ہوئی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا اظہارِ تشویش

بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کے مطابق اس سے قبل بھی بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ ان پر مختلف الزامات لگا کر انہیں منظر عام پر لایا گیا اور عوامی رد ِعمل پر انہیں رہا کیا گیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اکثر ایسی خواتین کو لاپتا کیا جاتا ہے جن کے شوہر یا قریبی رشتے داروں پر بلوچ مزاحمتی تنظیموں سے تعلق کا الزام ہو۔

اُن کا کہنا تھا کہ جس طرح گزشتہ دنوں نور جہاں نامی خاتون کو گرفتار کیا گیا اور اب ایک شاعرہ حبیبہ بلوچ کو لاپتا کیا گیا ہے یہ کارروائیاں اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہیں۔

اُن کے بقول اگر کسی پر الزام ہے تو اس کے لیے قانونی طریقۂ کار موجود ہے، مگر اس طرح رات کے اندھیرے میں کسی کو گھر سے اُٹھا کر لاپتا کرنا قابلِ مذمت ہے۔

'خاندان کے کسی فرد کو اندازہ نہیں تھا کہ شاری بلوچ یہ کر گزرے گی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:48 0:00

نصر اللہ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ کراچی میں شاری بلوچ کی جانب سے چینی اساتذہ پر خود کش حملے کے واقعے کے بعد سے اب تک بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 10 کے قریب خواتین اور بچے لاپتا ہو چکے ہیں۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک ادیب عابد میر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ عوام کے لیے، عوامی مسائل پر لکھنے، بولنے اور سرگرم رہنے والے ادیبوں کو ہراساں کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بلوچی زبان کے افسانہ نگار شیر محمد بلوچ کو بھی مزاحمتی تحریک سے وابستہ رہنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ دس برس قبل بلوچستان یونیورسٹی کے استاد پروفیسر صبا دشتیاری بلوچ تحریک کے حق میں بولنے پر ہی دن دیہاڑے قتل کر دیے گئے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت میں لکھنے اور بولنے والوں کو ہراساں تو کیا جاتا رہا ہے، لیکن خواتین کے خلاف اس نوعیت کی کارروائیاں نئی ہیں۔

حکومتِ بلوچستان کا مؤقف

شاعرہ حبیبہ پیر جان کو مبینہ طور پر لاپتا کرنے پر بلوچستان حکومت نے کوئی ردِعمل نہیں دیا، تاہم اس سے قبل ہونے والی گرفتاریوں کا حکومت دفاع کرتی رہی ہے۔

بلوچستان حکومت کی ترجمان فرح عظیم شاہ کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں خواتین خود کش حملہ آوروں کو تیار کیا جا رہا ہے۔

بدھ کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تربت سے گرفتار ہونے والی خاتون نورجہاں نے انکشاف کیا کہ افغانستان میں مارے گئے دہشت گرد اسلم عرف اچھو کی بیوی یاسمین خواتین خود کش حملہ آوروں کو تیار کر رہی ہے۔

خیال رہے کہ 2018 میں افغانستان کے شہر کے قندھار میں ہونے والے ایک خود کش حملے میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے کمانڈر اسلم عرف اچھو اپنے پانچ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ہلاک ہو گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG