رسائی کے لنکس

بلوچ اچھےاور امن والے لوگ تھے، اب وہاں امن نہیں : تجزیہ کار


بلوچ اچھےاور امن والے لوگ تھے، اب وہاں امن نہیں : تجزیہ کار
بلوچ اچھےاور امن والے لوگ تھے، اب وہاں امن نہیں : تجزیہ کار

اب وہاں امن نہیں ہے۔ حکومت نہیں ہے۔ قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔۔۔اگر قوم پرست اسوب ہرں میں بیٹھ جاتے تو اپوزیشن میں ایک رنگ ہوتا۔ یا اگر وہ حکومت میں شریک ہوتے تو (اور بات ہوتی)۔ اب، بلوچستان میں ہر آدمی اپوزیشن میں ہے: منصور اکبر کندی

پاکستان کے 65ویں یومِ آزادی کے موقعے پر وزیر ِاعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک بار پھر اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ملک سےدہشت گردی کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ لیکن، بلوچستان کے علاقے ڈیرہ الہ یار میں ایک ہوٹل پر ہونے والے بم دھماکے نے پھر سے یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ پاکستان بدستور دہشت گردی کا ہدف بنا ہوا ہے۔

پولیٹیکل سائنٹسٹ، منصور اکبر کندی کا کہنا ہے کہ دہشت گرد عناصر کا کوئی مذہب، کوئی قانون کوئی ضابطہ نہیں۔ اُن کےمطابق، یہ ایک ایسی خانہ جنگی ہے جِس کو روکنا بہت ہی مشکل ہے،ماسوائے اِس بات کے کہ ہمیں کوئی بڑا آپریشن یا اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنا پڑے۔

اتوار کو’ وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں بلوچستان میں ایک عرصے سے جاری تشدد کے واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے منصور اکبر کندی نے سرکاری سطح پر کیے جانے والے اقدامات کو’ ناکافی‘ قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے بلوچستان کا کونا کونا دیکھا ہوا ہے۔ اُن کے بقول، ’بلوچ اچھے لوگ ہیں اور امن والے لوگ تھے۔ اب وہاں امن نہیں ہے۔ حکومت نہیں ہے۔ قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔۔۔ اگرقوم پرست اسمبلیوں میں بیٹھ جاتے تو اپوزیشن میں ایک رنگ ہوتا۔ یا اگر وہ حکومت میں شریک ہوتے تو (اور بات ہوتی)۔ اب بلوچستان میں ہر آدمی اپوزیشن میں ہے۔‘

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیرپرسن زہریٰ یوسف کا بلوچستان میں تشدد کے واقعات کے بارے میں کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگوں میں اپنے حقوق کی پامالی اور احساسِ محرومی موجودہ صورتِ حال کے دوبڑے عوامل ہیں۔زہریٰ یوسف کے الفاظ میں، ’بلوچستان میں ہر قسم کے مسائل ہیں۔ ایک تو یقینی طور پر، وہاں کے لوگ (اپنے آپ کو)انسانی حقوق سے محروم محسوس کرتے ہیں کہ اُن کے حقوق پامال ہو رہے ہیں، چاہے قدرتی وسائل کے اوپر اُن کا اختیار ہو یا نمائندہ حکومت میں اُن کی نمائندگی کا معاملہ ہو۔ مگر اِس کے علاوہ، وہاں پر عسکریت پسندی بھی ہے۔ علیحدگی کی تحریک بھی ہے۔ وہاں فرقہ وارانہ تشدد ہے، وہاں طالبان عنصر بھی ہے۔ بلوچستان میں کئی قسم کے مسائل ہیں‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا ایجنڈا پاکستان کے مضبوط اداروں پر کنٹرول حاصل کرنا معلوم ہوتا ہے۔ اُن کے بقول،’یہاں پہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی ہے۔ اُس کی بنیاد طالبنائزیشن میں ہے۔ القاعدہ میں ہے۔ اور لگتا ہے اِن کا جو ایجنڈا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے جو ادارے میں اُن پرکسی طرح سے قابو پالیں‘۔

دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے، پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رُکن، بسم اللہ کاکڑ کا کہنا تھا کہ اِس کارروائی کی وجوہات کے پیچھے دوسرے عوامل کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے۔ اِس حوالے سے اُنھوں نے کوئٹہ میں نواب اکبر بگٹی کے بیٹے جمیل بگٹی اور اُن کے داماد سابق صوبائی وزیرِ اعلیٰ ہمایوٕں مری کے گھر پر مارے گئے چھاپے کا ذکر کرتے ہوئے اُس کی مذمت کی، اور کہا کہ اِس کا ردِ عمل سامنے آسکتا ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG