رسائی کے لنکس

ڈھاکہ: مطیع الرحمٰن نظامی کو پھانسی دے دی گئی


فائل
فائل

عدالت عظمیٰ نے اُن کی پھانسی کی سزا کے خلاف دائر کردہ اپیل مسترد کر دی، جس کے بعد ڈھاکہ سینٹرل جیل میں اُنھیں پھانسی دے دی گئی۔ ’رائٹر‘ خبر رساں ادارے نے بنگلہ دیش کے وزیر قانون، انیس الحق کے حوالے سے بتایا ہے کہ نظامی کو مقامی وقت کے مطابق 12.01 صبح پھانسی دی گئی

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما، مطیع الرحمٰن نظامی کو بدھ کے روز پھانسی دے دی گئی۔ اُن پر ملک کی جنگِ آزادی کے دوران سنہ 1971 میں نسل کشی اور دیگر جرائم ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے اُن کی پھانسی کی سزا کے خلاف دائر کردہ اپیل مسترد کر دی، جس کے بعد ڈھاکہ سینٹرل جیل میں اُنھیں پھانسی دے دی گئی۔

اس سے قبل ایک خصوصی ٹربیونل نے نسل کشی، زنا بالجبر اور ملک کی جنگ آزادی کے دوران چوٹی کے دانشوروں کے قتل عام کا ماحول پیدا کرنے کا الزام ثابت ہونے پر موت کی سزا سنائی تھی۔

تہتر سالہ نظامی کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا اور وہ سابق قانون ساز اور وزیر رہ چکے تھے۔

بنگلہ دیش کے وزیر قانون، انیس الحق نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ مقامی وقت کے مطابق 12.01 صبح اُنھیں پھانسی دے دی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پھانسی کی سزا کو دیکھنے کے لیے سینکڑوں افراد دارلحکومت ڈھاکہ کی سڑکوں پر نکل آئے۔ سنہ 1971 کی لڑائی میں حصہ لینے والے ایک سابق فوجی، اکرم حسین کے الفاظ میں، ’’ہم نے اس دِن کا انتظار 45 برسوں تک کیا۔ بالآخر، انصاف کے تقاضے پورے ہوئے‘‘۔

تاہم، سنہ 2010 میں جب وزیر اعظم شیخ حسینہ نے جنگی جرائم کا ٹربیونل تشکیل دیا، ہنگامے ہوئے اور حزب مخالف کی جانب سے نکتہ چینی سامنے آئی، جس میں جماعت اسلامی کے رہمنا شامل تھے، اس الزام پر کہ حسینہ سیاسی مخالفین کو ہدف بنا رہی ہیں۔

حفظ ما تقدم کے طور پر ڈھاکہ اور دیگر اہم شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی پولیس اور سرحدی محافظ تعینات کیے گئے تھے۔

اس سے قبل، اسی طرح کے فیصلوں اور پھانسیوں کے بعد تشدد کے واقعات سامنے آئے تھے، جن میں تقریباً 200 افراد ہلاک ہوئے، جن میں خاص طور پر جماعت اسلامی کے سرگرم کارکن اور پولیس اہل کار شامل تھے۔

سنہ 2013 سے اب تک حزب مخالف کے پانچ سیاست دان، جن میں جماعت اسلامی کے چار لیڈر بھی شامل تھے، ٹربیونل کی جانب سے سزا دیے جانے کے بعد پھانسی دی گئی۔

حکومت کا کہنا ہے کہ سنہ 1971 کی لڑائی کے دوران 30 لاکھ لوگ ہلاک کیے گئے جب کہ ہزاروں خواتین کی آبرو ریزی ہوئی، جب کہ کچھ دھڑوں نے، جن میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی، مغربی پاکستان سے علیحدگی کی مخالفت کی۔

پارٹی اس بات کی تردید کرتی ہے کہ اُس کے رہنماؤں نے مظالم میں حصہ لیا۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ٹربیونلز کا ضابطہٴ کار عالمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ حکومت اِن الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

XS
SM
MD
LG