رسائی کے لنکس

پچاس یرغمالوں کی رہائی کے معاہدہ میں صدر بائیڈن ذاتی طور پر شریک تھے:جان کربی


صدر بائیڈن۔ فائل فوٹو
صدر بائیڈن۔ فائل فوٹو

یرغمالوں کی رہائی اب کم از کم جمعے تک موخر ہو گئی ہے۔ یرغمالوں کی اس رہائی کے ساتھ، اسرائیل کو ایسے ڈیڑھ سو فلسطینیوں کو بھی رہا کرنا تھا، جنہیں اس نے پکڑ رکھا ہے۔ اس کے علاوہ ایک روزہ عارضی جنگ بندی بھی ہونی تھی اور غزہ میں مزید انسانی امداد بھی پہنچائی جانی تھی۔

جان کربی نے ، جو وائس آف امریکہ کے وائٹ ہاؤس کے نامہ نگار پیرس ہو آنگ سے بات کر رہے تھے، اسرائیل حماس جنگ ختم کرانے کی چین کی حالیہ سفارتی کوشش کو مسترد کردیا۔

تجزیہ کار اس کوشش کو بیجنگ کی جانب سے خود کو مشرق وسطیٰ میں امریکہ سے زیادہ قابل بھروسہ امن قائم کروانے والے کی حیثیت سے پیش کرنے کی کاوش قرار دیتے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ مسلمان ملکوں کے عہدیداروں کا وفد جس میں سعودی عرب ، اردن اور انڈونیشیا بھی شامل ہیں ہیں، واشنگٹن آنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ تو اس حوالے سے آپکا کیا پیغام ہو گا؟

جان کربی نے کہا جو ابھی ہوا ہی نہیں ہے اس کے بارے میں قبل از وقت وہ کچھ نہیں کہیں گے۔ لیکن انہوں نے کہاکہ میرے خیال میں آپ توقع کر سکتے ہیں کہ ہمارا پیغام وہی ہوگا جو پہلے تھا کہ ہم خطے میں اپنے پارٹنرز کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اور ان میں سے بہت سے پارٹنرز اب تک انتہائی مدد گار رہے ہیں۔

جان کربی نے کہا کہ چند چیزیں ہیں جنہیں ہم یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ اوّل یہ کہ اسرائیل کے پاس وہ تمام چیزیں اور صلاحیتیں موجود ہوں جنکی اسے حماس کے خطرے سے نمٹنےکے لئے ضرورت ہے۔ جو اسکی بقاکے لئے خطرہ ہے۔

دوسرے یہ کہ ہم سب جن کے خطے میں مفادات ہیں اور ظاہر ہے کہ جنہیں خطے میں رہنے والوں سے بھی دلچسپی ہے، وہ غزہ کے لوگوں کی انسانی بنیادوں پرمدد جاری رکھنے ، طبی بنیادوں پر مد دکرنے ، غذا، پانی، ادویات اور ایندھن کی فراہمی کے لئے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں کریں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ اس قسم کی مدد وہاں پہنچانے کی دنیا کی کوششوں کی قیادت کر رہا ہے۔ اور ہم یقینی طور پر چاہتے ہیں کہ ہمارے وہ پارٹنرز جو در حقیقت خطے میں رہتے ہیں، اس کام میں اور زیادہ حصہ لیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ امریکی حکومت کو امید ہے کہ چین کے صدر شی، ایران پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں گے کہ وہ جنگ کو پھیلنے سے روکنے کے لئے کردار ادا کرے. کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایران، امریکہ کے اس پیغام پر توجہ دے گا کہ جنگ کو پھیلنے نہ دیا جائے?

جان کربی نے کہا کہ ہم نے ایران کے غیر مستحکم کرنے والے روئیے اور اس مدد اورحمایت کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر رکھی ہیں جو وہ حزب اللہ کو، حماس کو اور یمن میں حوثیوں کو دیتا ہے۔ یا یوکرین میں مسٹر پوٹن کو فراہم کرتا ہے۔اور آج بھی ایران کے لئے ہمارا وہی پیغام ہے جو کل تھایا اس سے پہلے تھا کہ یہ جنگ کو پھیلانے یا وسعت دینے کے بارے میں سوچنے تک کا وقت نہیں ہے۔

وی او اے کے نامہ نگار پیرس ہو آنگ کی رپورٹ۔

فورم

XS
SM
MD
LG