رسائی کے لنکس

پاکستان پر ایرانی حملہ خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی مثال ہے: امریکہ


صدر جو بائیڈن۔فائل فوٹو
صدر جو بائیڈن۔فائل فوٹو

جب سے ایران نے پاکستان کی حدود میں فضائی کارروائی کی ہے، امریکہ میں مختلف سطحوں پر ردعمل سامنے آیا ہے۔ صدر بائیڈن نےخود اس معاملے پر بات کی ہے۔ قومی سلامتی کے مشیرجان کربی کا تفصیلی ردعمل سامنے آیا ہے۔ اور اسی طرح محکمہ خارجہ بھی اس پر بات کر تا رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ وہ کشیدگی میں اضافہ نہیں دیکھناچاہتا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو کہا کہ“جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، ایران کو خطے میں کوئی خاص پسند نہیں کیا جاتا ۔ ہم اب اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ معاملہ کہاں جاتا ہے ۔”

پاکستان نے جمعرات کو ایران کے اندر علیحدگی پسند عسکریت پسندوں پر حملے ایرانی حملوں کے دو دن کے بعد ردعمل کے طور پر کیے تھے تہران نے پاکستانی علاقے کے اندر مبینہ طور پر ایک حکومت مخالف تنظیم ’جیش العدل‘کے اڈوں کو منگل کو نشانہ بنایا تھا۔

اس وقت امریکہ ایران کے خلاف اپنے اس عزم کی آزمائش میں الجھا ہوا ہے جو ایران کی یمن کے حوثی باغیوں کی حمایت سے متعلق ہے۔ حوثی بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حملے کر رہے ہیں ۔

وائٹ ہاؤس کا ردعمل

صدر بائیڈن کے ساتھ ایئر فورس ون پر نارتھ کیرولائنا کے سفر کے دوران قومی سلامتی کے مشیر جان کربی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ واشنگٹن ایران اور پاکستان کے درمیان جھڑپوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان کربی
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان کربی

انہوں نے کہا، ہم عیاں طور پر جنوبی او ر وسطی ایشیا میں کشیدگی میں اضافہ نہیں دیکھنا چاہتے ۔ اور ہم اپنے پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

کربی نے کہا کہ پاکستان پر حملہ ایران کی جانب سے خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ایک او ر مثال ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ دو مسلح ملکوں کے درمیان خطے میں یہ تنازعہ شدت اختیار کرے۔

امریکی محکمہ خارجہ کا ردعمل

آج جمعرات کو محکمہ خارجہ کی بریفنگ میں جب ترجمان میتھیو ملر سے پوچھا گیا کہ یہ معاملہ کس حد تک تشویش کا باعث ہے تو انہوں نے کہا کہ امریکہ کو پاکستان اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر بے حد تشویش ہے۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے حملے سے متعلق پاکستان کے بیانات کو سراہتے ہوئے کہا،"ہم نے دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کی اہمیت سے متعلق پاکستان کی حکومت کا بیان دیکھا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ (پاکستان کی جانب سے) یہ بہت تعمیری اور مفید بیانات ہیں‘‘

اس سے قبل کل بدھ کو محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے، ایران کی جانب سے حملے پر، وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے ایک سوال کے تحریری جواب میں، پاکستان کے ساتھ قیمتی جانوں کے زیاں پر امریکہ کی طرف سے یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔

ترجمان میتھیو ملر نے کہا، ’’ہم (پاکستان کے اندر) ایران کے اس غیر ذمہ دارانہ حملے کی مذمت کرتے ہیں اور بے گناہ جانوں کے نقصان پر پاکستان کے دکھ میں شامل ہیں۔"

ترجمان میتھیو ملر نے مزید کہا کہ گزشتہ دو دنوں کے دوران ایران کا اپنے پڑوسی ملکوں کے اندر یہ تیسرا حملہ تھا۔ جیسا کہ ہم نے رپورٹوں میں دیکھا ہے، ان حملوں میں بے قصور شہری ہلاک ہوئے ہیں اور ان کو نقصان پہنچا ہے۔

ترجمان امریکی دفتر خارجہ میتھیو ملرکا کہنا تھا کہ ایک بار پھر ہم نے دیکھا ہے کہ ایران نے خطے میں تنازعات کا سفارتی حل تلاش کرنے کے بجائے، ایک مرتبہ پھر خطے کو غیر مستحکم کیا ہے۔

آیاایران پاکستان تنازعے میں واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ کھڑا ہے؟

امریکی عہدیداروں کے ردعمل سے متعلق اس سوال پر کہ آیا واشنگٹن ایران پاکستان تنازعے میں اسلام آباد کے ساتھ کھڑے ہونے کا تاثر دے رہا ہے، تھنک ٹینک نیو لائنز کے تجزیہ کار کامران بخاری نے کہا ہے ایسا تاثر ملتا ہے اور اس وقت امریکہ بھی چاہتا ہے کہ ایران کو پیچھے دھکیلا جائے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کامران بخاری نے کہا

’’ صدر بائیڈن کا بیان اس سلسلے میں ایک اشارہ تو کرتا ہے لیکن زیادہ مفصل بیان نہیں ہے۔لیکن حالات کا جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران کے معاملے میں امریکہ کو تاریخی طور پر ایک بہت ہی مشکل گھڑی کا سامنا ہے۔ ایران نے بہت سے مسائل کھڑے کیے ہوئے ہیں۔امریکہ کا مفاد ایران کو کسی بھی طرح پیچھے دھکیلنا ہے۔ پاکستان پر ایران کے حملے سے امریکہ کو موقع مل گیا ہے کیونکہ پاکستان اور امریکہ دونوں کی ہی کچھ ضروریات ہیں۔ پاکستان خود پر ایران کے حملے نہیں چاہتا اور امریکہ چاہتا ہے کہ ایران پر قابو پایا جائے تو ظاہر ہے دونوں کے درمیان تعاون ہو گا۔‘‘

اس رپورٹ کاکچھ مواد رائٹرز سے لیا گیاہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG