پاکستان سینیٹ کے چیئرمین، محمد صادق سنجرانی 14 اپریل، 1978ء میں بلوچستان کے ضلعے چاغی کے شہر نوک کنڈی میں پیدا ہوئے۔
وہ آزاد امیدوار کے طور پر بلوچستان سے سینیٹ کے رُکن منتخب ہوئے اور 12 مارچ، 2018ء کو سینیٹ کے چیئرمین کا حلف لیا۔ وہ 39 برس کی عمر میں آٹھویں اور پاکستان سینیٹ کے کم عمر ترین چیئرمین بنے۔
اُنھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم نوک کنڈی میں حاصل کی، جب کہ ماسٹرز کی ڈگری یونیورسٹی آف بلوچستان سے حاصل کی۔
صادق سنجرانی کاروبار سے وابستہ رہے ہیں۔
سیاسی میدان میں صادق سنجرانی نے 1998ء میں اُس وقت قدم رکھا جب اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے اُنھیں اپنی ٹیم کے رابطہٴ کار کے طور پر عہدہ دیا، جو خدمات وہ 1999ء تک بجا لاتے رہے، جب حکومت کی کایا پلٹ ہوئی۔
سنہ 2008ء میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اُنھیں وزیر اعظم سکریٹریٹ کے ’شکایات کے سیل‘ کے سربراہ کا عہدہ سونپا، جہاں اُنھوں نے پانچ برس تک خدمات انجام دیں۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ، صناٴاللہ خان زہری کے دور میں، صادق سنجرانی نے خصوصی معاون کے طور پر کام کیا۔
بلوچستان کی جنرل سیٹ پر اُنھوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے سینیٹ آف پاکستان کا انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئے؛ اور 12 مارچ، 2018ء کو سینیٹر کے طور پر عہدے کا حلف لیا۔ 103 میں سے 57 ووٹ لے کر، اُسی روز اُنھیں سینیٹ کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ اُن کے مدِ مقابل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار، راجہ ظفر الحق تھے، جنھیں کُل 46 ووٹ پڑے۔
محمد صادق سنجرانی کو پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موؤمنٹ کے علاوہ بلوچستان اور وفاقی زیر انتظام قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدواروں نے ووٹ دیا۔ اُس سے قبل، قومی سیاسی سطح پر اُن کی پہچان نہ ہونے کے برابر تھی۔
سلیم مانڈوی والا:
سلیم مانڈوی والا کا تعلق سندھ کے غیر سیاسی اور نامور کاروباری خاندان سے ہے، جو جائیداد، مینوفیکچرنگ، تفریح اور آٹوموبیل کے شعبوں سے وابستہ رہا ہے۔ وہ بلوچستان کے شہر حب میں ایک پلاسٹک کارخانے کے مالک رہے ہیں۔
وہ 1959ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے کراچی سے تعلیم حاصل کی اور 1981ء میں امریکہ کے ٹیکساس شہر کے ’فورٹ ورتھ اسکول آف ایوئیشن‘ سے ’کمرشل پائلٹ‘ کا لائسنس حاصل کیا۔
سیاست میں آنے سے پہلے، سلیم مانڈوی والا ’لسبیلہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘ کے صدر رہے۔
اُن کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے قربت تھی؛ جب کہ زرداری خاندان سے شناسائی بہت ہی پرانی ہے؛ یہ قربت میں اُس وقت بدلی جب آصف علی زرداری صدر پاکستان بنے۔
زرداری کے والد کی طرح، مانڈوی والا کا خاندان بھی سنیما بزنس سے وابستہ رہا ہے۔ اُن کا خاندان ساٹھ کے عشرے سے قبل کراچی کے سنیما، ’نشاط‘ کا مالک رہا ہے؛ جو ’بمبینو‘ سنیما سے زیادہ دور نہیں۔
اُن کا سیاسی سفر اکتوبر، 2008ء میں اُس وقت شروع ہوا جب پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ اور وفاق میں قیادت سنبھالی۔ اُنھیں ’بورڈ آف انویسٹمنٹ‘ کا چیئرمین تعینات کیا گیا۔
سنہ 2012ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما، ڈاکٹر عاصم حسین سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ہوئے، پارٹی نے سندھ سےسلیم مانڈوی والا کو سینیٹ کی نشست کی پیش کش کی اور وہ منتخب ہوئے۔ چند ماہ کے بعد وہ وزیر مملکت برائے خزانہ تعینات ہوئے، اور جب 2013ء کے اوائل میں وفاقی وزیر خزانہ، حفیظ شیخ نے استعفیٰ دیا، مالیات کا قلمدان اُن کے سپرد کیا گیا۔
سنہ 2015ء میں وہ ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ’جنرل سیٹ‘ سے رُکن منتخب ہوئے۔ سلیم مانڈوی والا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے سربراہ بھی رہے ہیں۔
سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین بننے سے قبل وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے 2018ء کے عام انتخابات سے متعلق ’پارٹی منشور‘ کے سربراہ رہے ہیں۔
سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کے لیے انتخاب میں، سلیم مانڈوی والا نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار، عثمان کاکڑ کو شکست دی۔ اُنھیں 98 میں سے 54 ووٹ پڑے، جب کہ عثمان کاکڑ نے 44 ووٹ حاصل کیے۔