رسائی کے لنکس

'سیکولر ازم سے انحراف بی جے پی کی شکست کا باعث بنا'


تلنگانہ
تلنگانہ

ان تینوں ریاستوں میں مرکز میں برسر اقتدار جماعت بی جے پی کی حکومت تھی جن میں سے چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی 15 برس سے اور راجھستان میں گزشتہ پانچ سال سے برسراقتدار تھی

بھارت میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست کی وجہ طرز حکمرانی اور سیکولرزم کی حدود سے باہر نکلنا ہے۔ اور اس کی قیمت عام انتخابات میں بھی انھیں چکانا پڑ سکتی ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ’انڈین انسٹیٹوٹ آف پیس‘ کے ڈائریکٹر جنرل، سابق فوجی اہلکار، میجر جنرل دیپانکر بینرجی نے کہا کہ ’’حالیہ انتخابات صرف مذہبی بنیادوں پر نہیں بلکہ طرز حکمرانی پر بھی تھے‘‘۔

بھارت کی پانچ ریاستوں مدھیہ پردیس، راجھستان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورام میں ہونے والے اسمبلی کے انتخابات میں حکمراں جماعت بی جے پی کو تین ریاستوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ موصولہ نتائج کے مطابق، کانگریس چھتیس گڑھ اور راجھستان میں حکومت بنانے والی ہے، جبکہ مدھیہ پردیش میں بھی وہ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔

ان تینوں ریاستوں میں مرکز میں برسر اقتدار جماعت بی جے پی کی حکومت تھی جن میں سے چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی 15 برس سے اور راجھستان میں گزشتہ پانچ سال سے برسراقتدار تھی۔

بھارت کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے، میجر جنرل (ر) دیپانکر بینرجی نے کہا کہ ان انتخابات میں ووٹروں نے ’’ہندوازم کی سیاست کو قبول نہیں کیا‘‘۔

بینرجی کے الفاظ میں ’’لوگوں نے بی جے پی کی طرز حکمرانی کی حمایت نہیں کی۔ ساتھ ہی، حکومت کے ہندوازم کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ یعنی بی جے پی کو بہتر حکمرانی نہ دینے پر اور سیکولرزم کی حدود سے باہر نکلنے پر مسترد کیا گیا ہے۔ یہ بات بے جے پی کو ماننا پڑے گی‘‘۔

اس سوال پر کہ آیا ریاستی انتخابات کے نتائج کے اثرات ملکی انتخابات پر بھی پڑ سکتے ہیں، اُنھوں نے کہا کہ پارلیمانی انتخابات میں صرف چند ماہ کا وقت باقی ہے۔ وقت اتنا کم ہے کہ اس کے اثرات عام انتخابات پر بھی ضرور پڑیں گے۔

اُن کے بقول، ’’عام انتخابات آئندہ سال اپریل میں ہوں گے۔ وقت اتنا کم ہے کہ ریاستی انتخابات کے نتائج کے اثرات ان انتخابات پر بھی ضرور پڑیں گے۔ لیکن کتنا اثر ہوگا اور کہاں ہوگا یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے‘‘۔

بینرجی نے کہا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ عوام میں بی جے پی کے بارے میں جو خیالات جنم لے چکے ہیں اس کے اثرات عام انتخابات پر بھی پڑیں گے‘‘۔

دہلی میں ’فری لانس‘ صحافی اور بلاگر، پریا جے بھگوان، جو خود کو بے جے پی کا زبردست حامی کہتی ہیں، ان خیالات کی حامی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاستوں میں شکست کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بی جے پی ایک مضبوط پارٹی ہے اور ان شکستوں کا عام انتخابات پر اثر نہیں پڑے گا۔

پریا جے بھگوان کہتی ہیں کہ ’’لوگ تبدیلی پسند کرتے ہیں یہ لوگوں کی مرضی۔ راجھستان میں تو ہر پانچ سال بعد لوگ نئے چہروں کو حکومت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگوں کی پسند ہے۔ بی جے پی مضبوط پارٹی ہے۔ ریاستی انتخابات کے اثرات ملکی انتخابات پر ہرگز نہیں پڑیں گے، کیونکہ بی جے پی نے عظیم کام کئے ہیں‘‘۔

نئی دہلی کے سنیئر صحافی، رومان ہاشمی کہتے ہیں کہ ’’ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کی وجہ ان سے وابستہ توقعات پر پورا نہ اترنا ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اتر پردیش میں بھی اگر آج انتخابات کرائے جائیں تو وہاں بھی بے جے پی کو بری طرح شکست ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کا مزاج سیکولر ہے وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ لیکن، بی جے پی نے ان کے مسائل پر توجہ دینے کی بجائے نان ایشو کو اٹھایا۔ وہ بابری مسجد کی بنیاد پر انتخابات لڑنا چاہتے تھے جسے لوگوں نے مسترد کر دیا‘‘۔

رومان ہاشمی کے الفاظ، ’’عوام سیکولر اقدار کی حامی ہیں۔ یہ پہلے بھی ثابت ہو چکا ہے اور آج پھر جو انتخابی نتائج سامنے آئے اس نے ثابت کردیا ہے کہ ہندوستان کی عوام سیکولر آئین پر یقین رکھتی ہے، نہ کہ اس طرح کے نعروں پر جو یو پی کے وزیر اعلیٰ تلگانہ میں جاکر لگاتے ہیں۔ اور، کہتے ہیں کہ آپ کے علی اور ہمارے مہابلی اس طرح کے انتخابی نعروں اور بی جے پی کی پالیسی کو عوام نے مسترد کر دیا‘‘۔

رومان ہاشمی بھی اس خیال کے حامی ہیں کہ ریاستی انتخابات کے نتائج ملکی پارلیمانی انتخابات پر مرتب ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ راہول گاندھی نے واضح کر دیا ہے کہ جس طرح ریاستی انتخابات میں انھوں نے کامیابی حاصل کی اسی طرح ملکی انتخابات میں بھی وہ کامیابی حاصل کریں گے۔

بقول رومان ہاشمی، ’’یو پی اور بہار جیسی ریاستوں میں اگر بی جے پی نے کامیابی حاصل کی تھی، تو وہاں کی اپوزیشن اس وقت متحد نہیں تھی اور ایسا لگ رہا ہے کہ اب ایک بار پھر اپوزیشن متحد ہو رہی ہے، جس کا مظاہرہ ان کے حالیہ اجلاسوں میں ہوچکا ہے۔ دوسری جانب، نریندر مودی بھی صورتحال کو بھانپ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپوزیشن سے بات چیت کا عندیہ دے رہے ہیں‘‘۔

XS
SM
MD
LG