رسائی کے لنکس

پاکستان: افغانستان میں بلوچوں کی 30 تربیت گاہیں


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستان نےالزام لگایا ہے کہ شورش زدہ بلوچستان صوبے میں دہشت گرد حملوں اور ریاست مخالف تخریبی کارروائیوں کی معاونت سرحد پار افغانستان سے کی جا رہی ہے جہاں بلوچ باغیوں نے اپنے 30 کیمپ یا تربیت گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔

صوبے میں نیم فوجی فورس ’فرنٹیئر کور‘ (ایف سی) کے سربراہ میجر جنرل عبیداللہ خان خٹک نے ہفتہ کو کوئٹہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے دور دراز اوردشوار گزار پہاڑی علاقوں میں بھی باغیوں نے121 کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔

اُنھوں نے کسی ملک کا نام لیے بغیر الزام لگایا کہ بیرونی طاقتوں کی مدد سے شدت پسند عناصر نے صوبے میں لوگوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتوں میں اضافہ کر دیا ہے جن کا نشانہ بننے والوں میں عام شہری،اساتذہ اور ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔

آئی جی ایف سی نے بتایا کہ سلامتی کے خدشات نے ایک لاکھ سے زائد افراد کو صوبے سے نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پرتشدد مہم کا مقصد بلوچستان میں بدامنی کو ہوا دے کر اسے پاکستان سے الگ کرنا ہے۔

جنرل خٹک نے کہا کہ اس سال اب تک صوبے میں دہشت گردی کے تقریباً ساڑھے پانچ سو واقعات ہو چکے ہیں جن میں سے نصف کے قریب کی ذمہ داری کئی کالعدم تنظیمیں قبول کرچکی ہیں۔

بلوچستان میں لوگوں کی جبری گمشدگی کے واقعات میں فرنٹیر کور کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کے الزامات میں حالیہ دنوں میں تیزی آئی ہے۔ خاص طور پر ’’لاپتہ افراد‘‘ سے متعلق سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران ہونے والے انکشاف میں ایف سی کو ہی صوبے کے مسائل کی ایک بڑی وجہ قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن آئی جی ایف سے نے ان الزامات کو اُن کے ادارے کو بدنام کرنے کی منظم مہم کا حصہ قرار دیا۔

’’ایک خاص مقصد کے ساتھ یہ مہم چلائی جارہی ہے تاکہ ریاست کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عوام کی نظروں میں رسوا کر کے صوبے میں انتشار پیدا کیا جائے۔‘‘

لاپتہ افراد سے متعلق مقدمے کی سماعت پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کا ایک تین رکنی بنچ کر رہا ہے۔ ایک حالیہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے انکشاف کیا تھا کہ جبری گمشدگیوں سے متاثرہ خاندانوں میں سے 80 فیصد نے ان واقعات کی ذمہ داری ایف سی کے اہلکاروں پر عائد کی ہے۔

XS
SM
MD
LG