رسائی کے لنکس

شام:دوران حراست ہلاک ہونے والے ڈاکٹر کی میت برطانیہ منتقل


ڈاکٹر عباس خان (فائل فوٹو)
ڈاکٹر عباس خان (فائل فوٹو)

انٹرنشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے بتایا کہ انھوں نے ڈاکٹر خان کی میت کو دمشق کے راستے سے لبنان کے دارالحکومت بیروت منتقل کیا جہاں ان کی والدہ فاطمہ خان اور برطانوی اہلکاروں نے میت وصول کی ۔

شام کی جیل میں ہلاک ہونے والے برطانوی ڈاکٹر کی میت اتوار کے روز بیروت سےبرطانیہ لائی گئی تاہم لاش کو پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کیا جائے گا۔

لندن سے تعلق رکھنے والے32 سالہ ڈاکٹر عباس خان کی موت کی خبر ان کے اہل خانہ کو اس وقت ملی جب ان کی رہائی میں چند ہی روز باقی تھے تاہم شامی حکومت نے ان کی موت کو خود کشی قرار دیا ہے۔

ہیتھرو ائرپورٹ پراسکائی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر خان کی والدہ فاطمہ خان زاروقطار رو رہی تھیں اور انھوں نے ایک بار پھر سے شامی نائب وزیر خارجہ فیصل میقداد کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان کا بیٹا خود کشی نہیں کر سکتا ہے وہ واپس اپنے گھر آنا چاہتا تھا جہاں اس کے دو معصوم بچے اس کا انتطار کر رہے تھے۔‘‘

بھارتی نژاد ڈاکٹر کی والدہ کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کا قتل ایک سیاسی قتل ہے۔

انٹرنشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے بتایا کہ انھوں نے ڈاکٹر خان کی میت کو دمشق کے راستے سے لبنان کے دارالحکومت بیروت منتقل کیا جہاں ان کی والدہ فاطمہ خان اور برطانوی اہلکاروں نے میت وصول کی۔

آرتھو پیڈک سرجن خان اگست 2012 میں ایک رضا کارانہ مہم میں شامل ہو کر شامی فورسز کے ہاتھوں زخمی ہونے والے شہریوں کے علاج کی غرض سے ترکی گئے تھے جہاں وہ مہاجر کیمپس میں نا صرف زخمیوں کا علاج کر رہے تھے بلکہ شامی ڈاکٹروں اورنرسوں کو بھی میڈیکل ٹریننگ دے رہے تھے۔

لیکن اسی سال نومبر کے مہینے میں جب وہ ترکی سے شام کے ایک قدیم شہر حلب کے ایک اسپتال میں شدید زخمیوں کا علاج کرنے کے لیے جارہے تھے تو ایک چیک پوسٹ پر شام کی حکومتی فورسز نے معمول کی چیکنگ کے دوران انھیں روکا اور پھر گرفتار کر لیا۔

برطانوی روز نامہ ٹیلی گراف میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق ڈاکٹر خان کی والدہ گذشتہ چار ماہ سے اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے کوششیں کر رہی تھیں۔ شامی حکومت کی جانب سے انھیں یقین دلایا گیا تھا کہ ڈاکٹر خان کو 20 دسمبر تک رہا کر دیا جائے گا ۔

ڈاکٹر عباس خان کی بہن سارہ نے بتایا کہ ان کی والدہ ڈاکٹر عباس کی رہائی کے لیے گذشتہ چار ماہ سےہر ممکن کوشش کر رہی تھیں اور اس سلسلے میں دمشق میں ہی قیام پزیر تھیں جہاں انھیں ہفتے میں ایک بار اپنے بیٹے سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس دوران وہ جیل میں کھانے پینے کی چیزیں بھی پہنچایا کرتی تھیں ۔

شامی حکومت کی جانب سے انھیں یقین دلایا گیا تھا کہ ، ڈاکٹر خان کو 20 دسمبر تک رہاکر دیا جائے گا لیکن پچھلے پیر کو انھیں جیل سے فون موصول ہوا کہ ان کے بیٹے نے گلے میں پھندہ ڈال کرخود کشی کر لی ہے۔

ڈاکٹر عباس کے گھر والوں نے ایک خط کا بھی انکشاف کیا ہے جو ڈاکٹر خان نے 7 دسمبر کو جیل سے لکھا تھا ۔ اس خط میں انھوں نےاپنی رہائی کے لیے کی جانے والی کوششوں پر اہل خانہ کی ہمت کی داد دی تھی اور کہا تھا کہ ،اسی طرح وہ اپنی کوشش جاری رکھیں جب تک وہ رہا نہیں ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر خان نے خط میں یہ بھی امید ظاہر کی تھی کہ ، وہ جلد ہی رہائی پانے والے ہیں اور کرسمس کی چھٹیاں گھر والوں کے ساتھ مل کرگزاریں گے۔
XS
SM
MD
LG