رسائی کے لنکس

کرونا کی وجہ سے پھیلی بے یقینی سے پریشان ہوں: بشریٰ انصاری


بشریٰ انصاری (فائل فوٹو)
بشریٰ انصاری (فائل فوٹو)

پاکستان کی نامور اداکارہ بشریٰ انصاری نے کہا ہے کہ اُنہیں موت سے کوئی خوف نہیں کیوں کہ ان کا ایمان ہے کہ موت تو ایک دن آنی ہے۔ لیکن ان کے بقول کرونا وائرس کی وجہ سے پھیلی بے یقینی نے انہیں پریشان کر دیا ہے۔

بشریٰ انصاری ان دنوں کینیڈا میں موجود ہیں اور وہیں سماجی دوری اختیار کر رکھی ہے۔

انسٹا لائیو پر وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ وہ ایک رفاہی تنظیم کے لیے شوز کرنے ٹورنٹو آئی تھیں اور اب وہیں اپنی بیٹی کے گھر پر مقیم ہیں۔

اُن کے بقول ''یہ پریشان کُن حالات ہیں اور میں اپنے نواسے، نواسیوں کو پیار کرنے سے بھی گھبراتی ہوں۔ باہر نکلنے سے خوف آتا ہے۔ گھبراہٹ کا یہ ماحول مجھے پریشان کرتا ہے۔"

بشریٰ انصاری گزشتہ پانچ دہائیوں سے پاکستان انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے جڑی ہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بچوں کے پروگرام میں گانا گانے سے کیا تھا۔

مختلف شعبوں میں بہترین کارگردگی پر وہ متعدد ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں جن میں صدارتی تمغۂ حسنِ کارکردگی بھی شامل ہے۔

اپنی نجی زندگی کے بارے میں کم بات کرنے والی ہنس مکھ بشریٰ انصاری نے بتایا کہ "میری طلاق کو کئی برس ہو چکے ہیں۔ نہ صرف میں نے بلکہ میرے سابق شوہر اقبال انصاری نے 36 سالہ ازدواجی زندگی میں بھرپور کوشش کی کہ ہم خوش رہیں۔ لیکن آخری 16 برسوں میں بہت مسائل تھے۔ پھر بھی ہم جڑے رہے۔''

بشریٰ انصاری کی دو بیٹیاں میرا اور نریمان انصاری ہیں۔ اُن کے بقول، "جب بچیاں اپنے اپنے گھروں کی ہوگئیں تو خاوند سے بھی علیحدگی ہوگئی۔ ہمارا جدا ہونا ہی ٹھیک فیصلہ تھا۔ لیکن، ایسا ہرگز نہیں کہ اقبال انصاری اپنی بیٹیوں کے لیے بہترین باپ نہیں۔"

بشریٰ انصاری کی تینوں بہنیں اداکاری اور لکھنے لکھانے کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کے والد احمد بشیر پاکستان کے ایک مشہور ادیب اور مصنف تھے۔

انہوں نے بتایا کہ "ہمارے دور میں، لڑکیوں کو ٹی وی پر آنے کی اتنی اجازت نہیں تھی، جیسے اب ہے۔ اسی لیے ابا نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر جانے کی اجازت صرف اس لیے دی کیوں وہ ایک معتبر ادارہ تھا۔"

بشریٰ نے بتایا کہ جب پاکستان میں ڈراموں کی شروعات ہوئی تو ادبی مواد کو ریڈیو ڈراموں میں ڈھالا گیا۔ پھر انہی کو ٹی وی ڈراموں میں ڈھالا جاتا تھا۔ اس لیے اُن کا معیار بہت اچھا اور بے باک ہوتا تھا۔ ایسے ناظرین جو نہیں بھی سیکھنا چاہتے تھے، وہ بھی تہذیب اور ادب سے جڑے رہتے تھے۔ مگر اب جب سے یہ انڈسٹری کمرشل ہوئی ہے اور ریٹنگ کے چکر میں پڑی ہے، معیار بہت گرا ہے۔ اچھا کام ہو رہا ہے، مگر پہلے سے بہت کم۔

وہ کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اپنے شائقین کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لیے انہوں نے بھی سوشل میڈیا کا استعمال شروع کر دیا ہے۔

بشریٰ انصاری کے بقول وہ ٹرولز کے نازیبا القاب سے بالکل پریشان نہیں ہوتیں، کیوں کہ وہ بری باتوں پر توجہ ہی نہیں دیتیں۔

XS
SM
MD
LG