رسائی کے لنکس

گورنر کی تبدیلی: کیا اسٹیٹ بینک پاکستان میں مہنگائی پر قابو پا سکے گا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کے عہدے کی میعاد پوری ہونے کے بعد حکومتِ پاکستان نے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر مرتضٰی سید کو قائم مقام گورنر مقرر کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئے گورنر کے لیے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور دگرگوں معاشی صورتِ حال پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔

یہ تبدیلی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کی نئی قسط کے حصول کے لیے مذاکرات کرنے ہیں جس کے لیے آئی ایم ایف کا وفد رواں ماہ اسلام آباد کے دورے پر آ رہا ہے۔

مہنگائی کی شرح چھ ماہ سے دہرے ہندسوں میں رہنے کے بعد اپریل میں دو برس کی بلند ترین یعنی 13 اعشاریہ 37 فی صد ریکارڈ کی گئی جس میں سب سے زیادہ غذائی اشیاٗ اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں بھی تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے اور اب یہ 16 اعشاریہ 66 ارب ڈالرز پر ہیں جو چند ماہ قبل 27 ارب ڈالرز سے زائد ہوچکے تھے۔



بطور گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا تین سالہ دور کئی معاشی ماہرین کی رائے میں چیلنجز سے بھرپور رہا اور اس دوران ملکی معیشت کو کرونا وباٗ کی وجہ سے معاشی سست روی کے بڑے چیلنج کے ساتھ افراط زر اور روپے کی قدر میں تاریخی کمی جیسے مسائل کا بھی سامنا رہا۔

تجزیہ کاروں کی رائے میں ابھی بادل چھٹے نہیں اور قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک کو بھی ایسے ہی چیلنجز کا سامنا ہوگا جب کہ یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ حکومت کب تک مستقل گورنر اسٹیٹ بینک کا تقرر کرتی ہے جو حالیہ ترمیم کے بعد اب پانچ برس کے لیے گورنر کے منصب پر فائز رہے گا۔

ماضی میں بینکنگ کے شعبے سے وابستہ رہنے والے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے خیال میں اس وقت قائم مقام گورنر کے عہدے پر موجود ڈاکٹر مرتضیٰ سید، گورنر کے عہدے کے لیے اس قدر تجربہ کار نہیں ہیں۔ دوسرا چونکہ مرکزی بینک کا بنیادی کام افراطِ زر کو کنٹرول کرنا ہے۔ لیکن درآمدات زیادہ ہونے کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر تیزی سے نیچے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس بنیادی چیز کو بہتر کیے بغیر مہنگائی پر فی الحال کنٹرول کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ روپے کی قدر میں استحکام لایا جائے۔ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کے تحت مذاکرات کو جلد سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے تاکہ روپے کی قدر میں استحکام لایا جاسکے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ اس وقت مرکزی بینک کے پاس مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے ایک ہی ہتھیار ہے کہ وہ شرح سود کو بڑھا دے۔ لیکن شرح سود بڑھانے کے لیے یہ دیکھنا بھی ہوتا ہے کہ مہنگائی کی شرح کس قدر ہے۔ اس کو توازن میں لانا ضروری ہوتا ہے اور دوسری جانب غیر ضروری پرتعیش درآمدات کو بھی کنٹرول کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ان کے خیال میں اس مقصد کے لیے مرکزی بینک اور حکومت کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میں معاشی امور کور کرنے والے صحافی اور ٹی وی پروگرام کے میزبان شہباز رانا کا بھی کہنا ہے کہ قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ سید فی الحال مستقل گورنر کے عہدے کے لیے زیادہ تجربہ نہیں رکھتے۔ اس لیے مستقل گورنر آنے پر اُنہیں دوبارہ ڈپٹی گورنر ہی کے عہدے پر کام جاری رکھنا ہوگا۔

شہباز رانا کا خیال ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک کی تبدیلی یا مدت ملازمت ختم ہونے سے آئی ایم ایف کے پروگرام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کیونکہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاہدہ شخصیات کے درمیان نہیں بلکہ ملک اور ادارے کے درمیان ہے۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ سابق گورنر کے دور میں ملکی مفادات کو وہ ترجیح نہیں دی گئی جو دی جانی چاہیے تھی۔

تاہم سابق گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا مؤقف ہے کہ انہوں نے اس عہدے پر رہ کر پاکستان کی بھرپور خدمت کی۔


صحافی شہباز رانا نے مزید بتایا کہ نئے قوانین کے تحت اسٹیٹ بینک کا واحد کام ملک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے اور بدقسمتی سے مرکزی بینک گزشتہ کئی ماہ سے اس جانب توجہ نہیں دے سکا۔

ان کا یہ بھی خیال ہے کہ عالمی منڈی میں اجناس کی بلند قیمت، روپے کی قدر میں کمی اور انتظامی وجوہات کی بنا پر مہنگائی قلیل مدت میں دہرے ہندسوں ہی میں رہے گی۔

صحافی اور روزنامہ 'دی بینکر' کے سابق مدیر جاوید محمود کہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کے اقدامات سے کہیں نہیں لگتا کہ وہ افراطِ زر یعنی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کو کوئی ترجیح دے رہا ہے۔

اُن کے بقول یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے کیا پالیسی اور انتظامی اقدامات اٹھاتی ہے جس سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں کوئی مدد مل سکے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جُز وقتی گورنر کا وہ کردار نہیں ہوتا جو ایک کُل وقتی گورنر اسٹیٹ بینک کا کردار ہوتا ہے۔ جب کہ حکومت کی جانب سے مستقل گورنر تعینات نہ کرنے تک روپے کی قدر مزید گرنے کا بھی خدشہ ہے۔

ادھر اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) ایکٹ 1956 (ترمیمی) کی شق 10(2) کی روشنی میں سینئر ترین ڈپٹی گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے پانچ مئی 2022 سے قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ سید کو وفاقی حکومت نے 27 جنوری 2020ء کو تین سال کی مدت کے لیے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک مقرر کیا تھا۔

ڈاکٹر سید میکرواکنامک ریسرچ اور پالیسی سازی میں 20 سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے 16 سال تک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) میں کام کیا ، پھر استعفیٰ دے کر اسٹیٹ بینک جوائن کیا۔ آئی ایم ایف میں وہ یورپ، جاپان اور کوریا سمیت ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی یافتہ معیشتوں میں آئی ایم ایف پروگراموں اور سرویلنس میں شریک رہے ہیں۔ دنیا بھر میں آئی ایم ایف ٹریننگ اور تیکنیکی تعاون کی نگرانی بھی کرتے رہے۔ انہوں نے 2010 اور 2014 کے درمیان چین میں آئی ایم ایف کے ڈپٹی ریزیڈنٹ نمائندے کے طور پر بھی خدمات انجام دیں تھیں۔

XS
SM
MD
LG