رسائی کے لنکس

پیٹرول کی قیمت میں کمی کا فیصلہ:' کم قیمت والا تیل تو پاکستان میں آیا ہی نہیں'


حکومتِ پاکستان نے عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے پیشِ نظر ملک میں بھی تیل کی قیمتوں میں کمی کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن ملک میں جاری سیاسی کشکش کے تناظر میں بعض حلقے اسے حکومت کا سیاسی فیصلہ قرار دے رہے ہیں جب کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ عوام کی مشکلات کم کرنا چاہتی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی کم قیمتوں کا فائدہ عوام تک منتقل کیا جائے گا۔ منگل کو رات گئے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انہوں نے وزارتِ پیٹرولیم اور خزانہ کو بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کو عوام تک پہنچانے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور ریلیف ان کا حق بنتا ہے۔


دوسری جانب وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے اشارہ دیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی سمری بدھ کو ہی منظوری کے لیے وزیرِ اعظم کو بھیج دی جائے گی۔ عام طور پر پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین ہر دو ہفتوں بعد یعنی ہر ماہ کی یکم اور 15 تاریخ سے قبل کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت تین ماہ میں پہلی بار 100 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے جو مارچ میں 123 ڈالر سے بھی زیادہ تھی۔ اور ماہرین کے خیال میں یہ قیمتیں مزید کم یا کم از کم 100 ڈالر کے لگ بھگ ہی رہیں گی۔

'پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا تعلق پنجاب کے ضمنی الیکشن سے ہے'

ایسے میں حکومت کی جانب سے عوام کو عالمی منڈی میں قیمتوں کے فیصلے کو مخالف سیاسی جماعتیں اور بعض ماہرین شک کی نگاہ سے بھی دیکھ رہے ہیں۔

ماہر معاشیات اور وزارتِ خزانہ میں سابق اسپیشل سیکریٹری ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھیں تو ملک میں بھی اس کی قیمتیں بڑھائی جاتی رہیں اور اب جب کہ عالمی مارکیٹ میں تقریبا 20 فی صد قیمتیں گری ہیں تو اس کا فائدہ بھی عوام کو یقینا منتقل کرنا چاہیے۔

لیکن ان کا خیال ہے کہ اس کمی کے اعلان کا براہ راست تعلق پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات سے ہے اور اس اعلان کی ٹائمنگ کے عنصر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اُن کے بقول اس الیکشن سے قبل ریلیف دے کر حکومت فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی حالیہ 10، 15 روز میں دیکھی گئی ہے لیکن یہ کم قیمت والا تیل تو پاکستان میں ابھی آیا ہی نہیں ہے۔ یقیناً اس کا فائدہ مستقبل میں ہونے والے سودوں میں تو ضرور نظر آئے گا لیکن حکومت ملک میں فوری قیمتیں کم کرکے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔


ڈاکٹر اشفاق حسن کا مزید کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ حکومت ان ضمنی انتخابات کے بعد ایک بار پھر ردو بدل کرے اور قیمتوں میں کی جانے والی کمی آنے والے دنوں میں واپس لے لی جائے۔

اس سوال پر کہ آئی ایم ایف کی جانب سے اس پر کوئی اعتراض سامنے آسکتا ہے تو ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ اگر قیمتوں میں کمی کی جاتی ہے تو آئی ایم ایف کو بتانا ہوگا کہ یہ کس بنیاد پر کم کی گئی ہیں، کیا اس کی بنیاد صرف عالمی مارکیٹ میں کم ہوتی ہوئی قیمتوں پر ہی مبنی ہے یا حکومت اپنی جانب سے بھی اس میں کچھ مزید ریلیف دے رہی ہے۔

"حکومتی فیصلے کے پیچھے خوش قسمتی کا عنصر زیادہ ہے"

دوسری جانب معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹر اقدس افضل کے خیال میں اس کے پیچھے سیاست نہیں بلکہ موجودہ حکومت کے لیے خوش قسمتی کا عنصر کارفرما ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اقدس کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر جو قیمتیں عالمی مارکیٹ میں ہوں گی وہی قیمتیں حکومت کو ملک کے اندر بھی نافذ کرنا ہوگی۔ اگر قیمتیں زیادہ ہوں گی تو مصنوعات مہنگی اور اگر سستی ہوں گی تو حکومت ان کی قیمتیں کم کرسکے گی۔

اُن کے بقول اس طرح حکومت اب پیٹرولیم مصنوعات پر کسی سبسڈی دینی کی پوزیشن ہی میں نہیں رہی ہے۔ کیونکہ آئی ایم ایف نے اس معاملے پر مکمل طور پر حکومت کے ہاتھ باندھ دیے ہیں۔ حکومت نے اس سال 142 ارب روپے کا پرائمری سرپلس جمع کرنا ہے جب کہ پیٹرولیم مصنوعات پر 855 ارب روپے کی لیوی بھی جمع کی جانی ہے اور آئی ایم ایف اس کو مسلسل مانیٹر بھی کر رہا ہے۔

ڈاکٹر اقدس افضل نے مزید بتایا کہ حکومت سال کے آخر میں پیٹرولیم لیوی جمع کرنے کے ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس کی شرح تو بڑھائے گی مگر عالمی مارکیٹ میں قیمتیں اس قدر کم ہوچکی ہیں کہ وہ اسی میں ہی ایڈجسٹ کر لی جائیں گی۔ لہذٰا عوام کو کم ہوتی ہوئی قیمتوں کا باآسانی ریلیف بھی فراہم کیا جاسکتا ہے۔

ان کے خیال میں اس حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں گرنے لگی ہیں۔ لیکن یہ قیمتیں ایک دو روز میں نہیں بلکہ 23 جون سے گر رہی ہیں اور حکومت نے اس کا فیصلہ ضمنی انتخابات سے محض چند روز قبل بڑی چالاکی سے اب جا کر کیا ہے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی وجہ جہاں امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہے وہیں دنیا میں کساد بازاری کے باعث کم ہوتی ہوئی طلب بھی ہے۔

دوسری جانب امریکی صدر بائیڈن رواں ماہ سعودی عرب کا دورہ کررہے ہیں جس میں تیل کی قیمتیں کم رکھنے کے لیے تیل پیدا کرنے والے اس بڑے ملک کو پیدوار بڑھانے کے لیے قائل کیا جائے گا۔ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ قیمتیں آنے والے دنوں میں کم یا کم از کم 100 ڈالر کے اردگرد ہی رہیں گی۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے سے اس کا مثبت اثر ملک میں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کرنے کی صورت میں بھی پڑے گا جو اس وقت 13 سال میں سب سے زیادہ ہے۔ اگرچہ حکومت نے رواں مالی سال میں افراط زر کا ہدف 11 فی صد مقرر کیا ہے لیکن اسٹیٹ بینک کے مطابق یہ شرح رواں سال 18 سے 20 فی صد کےدرمیان رہے گی۔

XS
SM
MD
LG