رسائی کے لنکس

'امریکہ اور یورپ کے ساتھ تعلقات کی بحالی نئی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہو گا'


شہباز شریف نے امریکہ ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
شہباز شریف نے امریکہ ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف کو جہاں معاشی محاذ میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے وہیں نئے وزیرِاعظم نے عندیہ دیا ہے کہ وہ خارجہ پالیسی کو بھی ازسرِ نو ترتیب دیں گے کیوں کہ اُن کے بقول سابق حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کے دوست ممالک بھی ناراض ہیں۔

ماہرین کے مطابق شہباز شریف حکومت کو امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات اُستوار کرنے میں سب سے زیادہ چیلنجز درپیش ہوں گے۔

عالمی اُمور کے ماہر پروفیسر رفعت حسین کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان عالمی سطح پر مکمل تنہائی کا شکار ہے جس کی وجہ سابق حکومت کی خارجہ پالیسی ہے۔ لہذٰا امریکہ اور یورپ کے ساتھ تعلقات کی بحالی نئی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دوست ممالک چین اور سعودی عرب بھی سابقہ حکومت کی پالیسیوں پر حیران تھے۔

رفعت حسین کے بقول یوکرین جنگ کے دوران عمران خان کا روس کا دورہ کرنا بھی غلط فیصلہ تھا جس سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی بڑا چیلنج

ڈاکٹر رفعت حسین کے مطابق اس وقت پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہت خراب ہیں کیونکہ سابق وزیرِاعظم عمران خان واشنگٹن پر پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے بھی وہ براہ راست امریکہ کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔

یاد رہے کہ سابق وزراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو ایک غیر ملکی مراسلہ لہرایا تھا، عمران خان نےالزام لگایا تھا کہ اُن کی حکومت گرانے کے لیے بیرونی مداخلت پر تحریکِ عدم اعتماد لائی جا رہی ہے۔ بعدازاں قوم سے خطاب میں عمران خان نے امریکہ کا نام لے لیا تھا۔ امریکہ نے ان الزامات کی تردید کی ہے ۔

'دفترِ خارجہ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا'

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ سابق حکومت نے دفترِ خارجہ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جس کی وجہ سے پاکستان کے کچھ ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز سے وابسطہ سلمان بیٹنی کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جس انداز میں دفتر خارجہ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بعض ممالک کے ساتھ خراب ہوتے تعلقات کو دیکھتے ہوئے آرمی چیف کو اس معاملے میں مداخلت کرنا پڑی۔

وزیراعظم شہباز شریف کے انتخاب پر اراکینِ قومی اسمبلی کی رائے
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:55 0:00

اُن کے بقول حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والے سیکیورٹی ڈائیلاگ میں آرمی چیف نے امریکہ اور یورپ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا جو عمران خان کی حکومت کی پالیسی سے بالکل مختلف مؤقف تھا۔

آرمی چیف نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں اور وہ ایک بہت بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے۔

سلمان بیٹنی کہتے ہیں کہ پاکستان ماضی میں سرد جنگ کا بھی حصہ رہا ہے اور کئی عالمی تنازعات میں فریق بھی بنتا رہا ہے، لیکن جس طرح عمران خان کی حکومت میں دفترِ خارجہ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا دفترِ خارجہ عوامی جذبات کے بجائے عالمی حالات اور خطے کی صورتِ حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی بناتا ہے۔

خیال رہے کہ عمران خان کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسی خارجہ پالیسی کے خواہاں ہیں جس میں کوئی بھی ملک پاکستان پر دباؤ نہ ڈال سکے۔

سابق وزیرِاعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ بعض ممالک اُن کے دورۂ روس پر خوش نہیں تھے۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ بعض ممالک اُن کے دورۂ روس پر خوش نہیں تھے۔

عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی اُن کے حامی ملک بھر میں سراپا احتجاج ہیں اور امریکہ کے خلاف نعرہ بازی کی جا رہی ہے۔

'بیرون ملک سفارت کاروں کے لیے مشکلات ہوں گی'

سلمان بیٹنی کا مزید کہنا تھا مبینہ دھمکی آمیز خط کی تشہیر کی وجہ سے پاکستان کے سفارت کاروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور دیگر ممالک کے سفارت کار ان کے ساتھ بات چیت میں اب محتاط رویہ اپنائیں گے۔

مغربی ممالک سے دوبارہ سے تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے سلمان بیٹنی کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کی معاشی صورت ِحال تیزی سے ابتر ہو رہی ہے۔ لہذٰا پاکستان کی خواہش ہو گی کے یورپی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط مضبوط کیے جائیں۔ تاہم اس کے لیے ملک میں سیاسی استحکام لانا بہت ضروری ہو گا۔

سیاسی مبصر سلمان بیٹنی کا مزید کہنا تھا کہ نئی حکومت کی بھی یہی خواہش ہو گی کہ جو جو ممالک پاکستان سے ناراضگی اختیار کر چکے ہیں، خاص طور پر امریکہ، انہیں آہستہ آہستہ منا لیا جائے، ان کے ساتھ دوبارہ سے روابط قائم کیے جائیں۔

XS
SM
MD
LG