رسائی کے لنکس

پاکستان کا روایتی سنیما کلچر بدل رہا ہے


کراچی، راولپنڈی، گوجرانوالہ اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الڑا ماڈرن ٹیکنالوجی رکھنے والے سنیما ہالز کی تعداد بڑھ رہی ہے جنہیں دیکھتے ہوئے روایتی سینما ہالز کے مالکان کی بھی سوچ تبدیل ہورہی ہے

پاکستان میں نیا سنیما کلچر ابھر رہا ہے۔ جدید ترین آلات سے مزین، بہترین ماحول اور بالکل نئے انداز کی نشستوں والے’سنے پلیکس‘، ’ملٹی پلیکس‘ اور ’سنے پیکس‘ سنیما ہالز کی طرف فلم بین کھنچے چلے آرہے ہیں۔ ٹو ڈی، تھری ڈی اور فائیو ڈی ٹیکنالوجی کی بدولت فلم بینوں کی سوچ تبدیل ہورہی ہے۔ روز انہ شام کے اوقات میں اور ویک اینڈز پر سنیما گھروں کے آگے فلم بینوں کی لمبی لمبی لائنیں لگی نظر آتی ہیں۔
کراچی کے اوشین مال میں واقع ’سنے پیکس‘ کے باہر موجود ایک فلم بین فائزہ علی کا کہنا ہے، ’آج کے دورکی ہر چیز بدل گئی ہے پھر چاہے وہ سنیماہالز ہی کیوں نہ ہوں۔ اگرچہ پاکستان میں ’سنے پلیکس‘، ’ملٹی پلیکس‘ اور ’سنے پیکس‘ جیسی اصلاحات نئی ہیں لیکن ان کا اسٹینڈرڈ انٹرنیشنل طرز کا ہے۔ آج کا فلم بین گولڈ اور پلاٹینم اسکرینز پر فلم دیکھنا چاہتا ہے ، اسے سنیماہال میں ایکسکلوسیو لاوٴنچ کی تلاش ہوتی ہے، آرام دے کرسیوں کی بجائے اب اسے آرام دے صوفے چاہئیں۔۔اس صورتحال میں ’سنے پلیکس‘، ’ملٹی پلیکس‘ اور ’سنے پیکس‘ ہی اس کی ڈیمانڈ پوری کرسکتے ہیں۔‘
کراچی، راولپنڈی، گوجرانوالہ اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان سنیماہالز کی تعداد بڑھ رہی ہے جنہیں دیکھتے ہوئے روایتی سینما ہالز کے مالکان اپنے اپنے سنیماہالز کو بھی یکسر تبدیل کرنے کے لئے ایکٹیو نظر آرہے ہیں۔
بھارتی فلموں کی آمد ، انقلاب کی آمد۔۔؟
پاکستان میں سنہ2006 میں بھارتی فلموں کو سنیماہالز میں نمائش کی اجازت کیا ملی، گویا یہاں انقلاب آگیا۔ یہ فلمیں انتہائی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بنائی گئی تھیں جبکہ سیلن زدہ، بدبودار، لکڑی کی نشستوں اور بابا آدم کے زمانے کے بڑے بڑے بے رنگ پروجیکٹرز والے سینما ہالز پر ان کی مستقل نمائش ممکن نہیں تھی لہذا کراچی میں سن 2010ء میں پہلا جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ تھری ڈی سنیماہال ایٹریم بنا جس نے پہلے ہی دن سے فلم بینوں کے دل جیتنا شروع کردیئے۔
ایٹریم کی کامیابی سے دوسرے سرمایہ کاروں کی بھی ہمت ہوئی اور انہوں نے روایتی سنیماہالز کے مقابلے میں الٹرا ماڈرن ’سنے پلیکس‘، ’ملٹی پلیکس‘ اور ’سنے پیکس‘ تیارکرانا شروع کردیئے۔
کراچی کے ایک روایتی سنیما ہالز کے منیجر راحیل افضل نے وی او اے کو تبادلہ خیال میں بتایا،’ایسا لگتا ہے کہ اب روایتی سنیماہالز کے دن گنے جاچکے ہیں۔ غیر ملکی، خاص کر بھارتی فلموں کا رجحان پاکستان میں بڑے پیمانے پر بزنس کا باعث ہے لیکن فلم ڈسٹری بیوٹرز روایتی سینماؤں کو اپنی فلمز کے پرنٹس دیتے ہوئے گھبراتے ہیں، اس کے بجائے وہ سنے پلیکس سینماؤں کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ سنے پلیکس اور ملٹی پلیکس پر فلم بنیوں کا رش رہتا ہے فلم اچھا بزنس کرتی ہے لہذا ڈسٹری بیوٹر کو بھی زیادہ پیسہ ملتا ہے جبکہ روایتی سنیما پر لگنے چنے لوگ جاتے ہیں، بزنس کم ہوتا ہے وہ اپنا منافع نہیں کماپاتے ڈسٹری بیوٹر کو لمبی چوڑی رقمیں کہاں سے دیں گے۔‘
راحیل کے مطابق، ’اس سے ایک نقصان یہ ہورہا ہے کہ روایتی سینما ؤں کے پاس نئی فلموں کی عدم دستیابی پر پرانی فلمیں لگانے پر مجبور ہیں جن سے روز مرہ اخراجات بھی پورے نہیں ہوپاتے لہذا روایتی سنیمامالکان نے بھی دھیرے دھیرے جدید سینماہالز اور ٹیکنالوجی کی طرف سوچنا شروع کردیا ہے۔ ویسے بھی یہ مقابلے کا دور ہے ہر شخص پیسے کمانے کی دوڑ میں سرپٹ دوڑنا چاہتا ہے۔ لہذا روایتی سنیما پر زوال کے دن شروع ہوچکے ہیں۔‘
کراچی کے ساتھ ساتھ لاہور کے بھی متعدد روایتی سنیما مالکان نے سینماؤں کی تزئین و آرائش اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کے لیے پلاننگ شروع کردی ہے جس کے تحت عیدالفطر سے قبل میکلوڈ روڈ پر واقع دو اور ایم ایم عالم روڈپر تین سینماؤں کو نئے طرز کے سنیماہالز میں تبدیل کردیا جائے گا۔
XS
SM
MD
LG