رسائی کے لنکس

’چارلی ہیبڈو‘ کے آرٹسٹ کا رسالہ چھوڑنے کا اعلان


کارٹونسٹ، رینالڈ لوزیئر نے منگل کے روز فرانسسی اخبار ’لبریشن‘ کو بتایا کہ وہ چارلی ہیبڈو کے لیے کام میں پیش آنے والے دباؤ کا مقابلہ نہیں کرسکتے، کیونکہ اس کام میں ’اسٹریس‘ (ذہنی مشقت) کے ساتھ ساتھ، عملے کی کم تعداد کا معاملہ درپیش ہے

کارٹونسٹ جنھوں نے مزاحیہ فرانسیسی رسالے ’چارلی ہیبڈو‘ میں پیغمبر اسلام کے خاکے بنائے تھے ،جس پر جنوری میں رسالے کے دفاتر کو شوٹنگ کا ہدف بنایا گیا تھا، کہا ہے کہ وہ رسالے کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔

کارٹونسٹ، رینالڈ لوزیئر نے، جو پیشہ وارانہ طبقے میں ’لوز‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں، منگل کو فرانسسی اخبار ’لبریشن‘ کو بتایا کہ وہ چارلی ہیبڈو کے لیے کام میں پیش آنے والے دباؤ کا مقابلہ نہیں کرسکتے، کیونکہ اس کام میں ’اسٹریس‘ (ذہنی مشقت) کے ساتھ ساتھ، عملے کی کم تعداد کا معاملہ درپیش ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ حملے سے لے کر اب تک اُنھوں نے کئی خاکوں پر طبع آزمائی جاری رکھی ہے، کیونکہ، کوئی اور یہ کام نہیں کرنا چاہتا۔

لوزیئر نے چارلی ہیبڈو کے پہلے شمارے کے کور پیج کے لیے خاکے بنائے تھے، جس پر سات جنوری کو کچھ لوگوں نے رسالے کے پیرس کے ہیڈکوارٹر پر دھاوا بول دیا تھا۔ واقعے میں دو مذہبی شدت پسند عمارت میں داخل ہوئے اور گولیاں چلانا شروع کر دی تھیں، جس حملے میں 12 افراد ہلاک ہوئے، جن میں متعدد کارٹونسٹ اور عملے کے دیگر ارکان شامل تھے۔

حملے کے بعد شائع ہونے والے پہلے شمارے کے کور پیج پر پیغمبر اسلام سے متعلق خاکہ چھاپا گیا تھا، جس پر تحریر تھا: ’میں چارلی ہوں‘۔ اس ڈرائنگ کا کیپشن تھا: ’سب درگزر کردیا گیا‘۔

محاورہ ’آئی ایم چارلی ہیبڈو‘ اُن لوگوں کے لیے یکجہتی کا ایک پیغام بن سامنے آیا جو شوٹنگ میں ہلاک و زخمیوں اور آزادی صحافت کے لیے آواز بلند کر رہے تھے۔

رسالے کے اس شمارے کی 60000 کاپیاں بکیں، جو عام سطح سے زیادہ فروخت تھی، جب کہ آخری شمارہ 800000 تک جا پہنچا تھا۔

لوزیئر اور رسالے کے عملے کے دیگر ارکان کو اِن دِنوں پولیس کا تحفظ حاصل ہے۔

چارلی ہیبڈو پر حملوں کے بعد، اسلامی شدت پسندوں کی جانب سے تین روز تک پیرس اور اُس کے مضافات میں تشدد کی کارروائیاں جاری رکھی گئیں، جن واقعات میں 20 افراد ہلاک ہوئے۔

XS
SM
MD
LG