رسائی کے لنکس

انسانی حقوق کی پامالی، 6 ماہ میں 1764 بچوں سے زیادتی


یہ واقعہ پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا آئینہ اور رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں زیادتی کا شکار ہونے والے 1ہزار 7سو 64 بچوں میں سے صرف ایک بچے کا ہے۔

بچوں سے زیادتی کے واقعات کی خبریں پڑھ یا ٹی وی اسکرین پر دیکھ کر کچھ دیر افسوس کرنا اور پھر بھول جانا اب عام سی بات ہوگئی ہے۔ لیکن، جس بچے پر یہ قیامت ٹوٹتی ہے وہ اور اس کا خاندان جیتے جی مرجاتا ہے۔

پاکستان کے صوبہٴ پنجاب کےضلع لودھراں کے قصبے ’کہروڑپکا‘میں اینٹوں سے بنے، مٹی سے اٹے چھوٹے سے گھر کے مکین بھی ایسے ہی ہولناک واقعے کا شکار بنے۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے اپنے نو سال کے بچے کو قریبی مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے بھیجا۔

دو کمروں میں قائم مدرسے میں نو سال کا بچہ ایک سال سے زیر تعلیم تھا۔ بچے کے خاندان اور خود بچے نے موسم کی سختیوں اور حالات کی مشکلات کو حصول علم کی راہ میں آڑے نہیں آنے دیا۔ لیکن، جو کچھ ان کے ساتھ ہوا اسے نرم سے نرم الفاظ میں بھی ’بھیانک‘ کہا جا سکتا ہے۔

اپریل کے آخری دنوں کی ایک گرم رات کو مدرسے میں مقیم بچے کو اس کے استاد نے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔

نو سالہ بچے نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اپنی ماں کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے اوپر گزری قیامت کی روداد غیر ملکی خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتاتے ہوئے کہا ’’مجھے ڈر لگ رہا تھا اور میں رو بھی رہا تھا۔ میری آواز نہ نکلے۔ اس لئے استاد نے میرے منہ میں میری ہی قمیص ٹھونس دی تھی۔‘‘

ظلم کا شکار نو سالہ بچے کی ماں کوثر پروین تاب نہ لاسکیں اور روتے ہوئے اپنے بچے کو گود میں چھپا لیا۔ کوثر پروین آج بھی جب اپنے بچے کی بات کرتی ہیں تو ان کا ہر لفظ آنسوؤں میں بھیگا اورڈوبا ہوا ہوتا ہے۔

انسانی حقوق کی پامالی کا آئینہ
یہ واقعہ پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا آئینہ اور رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں زیادتی کا شکار ہونے والے 1ہزار 7سو 64 بچوں میں سے صرف ایک بچے کا ہے۔

یہ اعداد و شمار پاکستانی وزارت انسانی حقوق کی قومی اسمبلی میں گزشتہ ماہ جمع کرائی گئی ایک تحریری رپورٹ میں درج ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، جنوری 2017سے جون 2017تک پیش آنے والے ان واقعات میں سب سے زیادہ بچے صوبہٴ پنجاب میں زیادتی کا نشانہ بنے۔

رپورٹ کے مطابق، پنجاب میں زیادتی کے 1089 اور سندھ میں 490 واقعات پیش آئے۔ تیسرے نمبر پر بلوچستان میں 76 اور اس کے بعد خیبر پختونخواہ میں 42 واقعات پیش آئے۔ دارالحکومت، اسلام آباد میں 58 اور آزاد کشمیر میں 9 واقعات پیش آئے۔

واقعات کا گہرائی سے مشاہدہ کیا جائے تو سب سے اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ واقعات کیوں پیش آتے ہیں؟ اور ان کا اصل ذمے دار کون ہے؟ وائس آف امریکہ نے ’امکان ویلفیئر آرگنائزیشن‘ نامی غیر سرکاری تنظیم کی ڈائریکٹر اور پیشے کے اعتبار سے انسانی حقوق کی وکیل طاہرہ حسن سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا:

’’جس معاشرے میں قانون پر درست انداز میں عمل درآمد نہ ہو، جہاں قصور وار کو کبھی اس کے اثر و رسوخ اور کبھی کسی نوعیت کے دباؤ کے باعث پکڑا ہی نہ جائے یا پکڑ کر سزا دیئے بغیر ہی چھوڑ دیا جائے وہاں ایسے واقعات عام ہونے لگتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں یہی صورتحال ہے، یہی رواج ہے۔ یہاں 99فیصد کیسز میں ’ملزمان‘ بچوں کے اپنے قریبی رشتے دار یا شناسا ہی ہوتے ہیں۔ وہ بچوں کو زیادتی کا نشانہ تو بناتے ہی ہیں ساتھ ہی اس قدر خوف زدہ بھی کر دیتے ہیں کہ بچے اپنے اوپر گزرنے والی قیامت کا کسی سے ذکر تک نہیں کرتے۔ لیکن، اندر ہی اندر ان کا اپنا وجود مرجاتا ہے۔‘‘

طاہرہ حسن مزید کہتی ہیں کہ ’’میں یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ صرف غریب یا متوسط طبقے کے گھروں میں ایسا ہوتا ہے۔ نہیں۔ بلکہ میرا تو مشاہدہ یہ ہے کہ ماڈرن سوسائٹی میں ’موو‘ کرنے والی اگر 20خواتین ایک کمرے میں موجود ہوں تو ان میں سے بھی کئی خواتین ایسی ضرور ہوں گی، جنہیں بچپن میں کسی نہ کسی طرح سے زیادتی سہنا پڑی ہوگی۔‘‘

کراچی کی ایک خاتون ماہر نفسیات روبینہ فیروز کا کہنا ہے ’’بچوں سے جنسی زیادتی پاکستان کے اسکولوں اور مدرسوں میں سرائیت کر جانے والا ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ مٹی کے بنے کچے گھروں، چھوٹے چھوٹے دیہات سے لے کر بڑے بڑے شہروں تک؛ یہ مسئلہ یکساں ہے۔ یہاں جنسی زیادتی کے موضوع پر کھلے عام بات کرنا معیوب سمجھاجاتا ہے۔ بلکہ، اسے ممنوع قرار دیا جاتا ہے حالانکہ یہ چیزیں نصاب میں شامل ہونی چاہئیں۔‘‘

ایک اور غیر سرکاری تنظیم ’چلڈرن ایمپاورمنٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان‘ کی سی ای او، تہمینہ شاہد کا کہنا ہے ’’جس طرح دیگر مسائل نصاب کا حصہ ہوتے ہیں اسی طرح بالغ معلومات بھی نصاب کا حصہ ہونی چاہئیں، تاکہ بچوں میں شروع ہی سے اس مسئلے سے آگاہی ہو اور وہ ’بری‘ یا ’اچھی نظروں‘ سے’دیکھنے‘ اور ’گھورنے‘ کے فرق کو سمجھ کر واقعے سے پہلے ہی ’ہوشیار‘ ہوسکیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کر سکیں۔ لیکن، یہاں ایسا کچھ نہیں۔’گڈ ٹچ‘ اور ’بیڈ ٹچ‘ تو سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے ’پرائیویٹ جسمانی اعضا‘ تک سے بچوں کو آگاہی نہیں ہوتی، اسی لئے وہ آسانی سے ’شکار‘ ہوجاتے ہیں۔‘‘

ایک عام مشاہدہ یہ بھی ہے کہ صرف اسکول یا مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کو ہی زیادہ کا شکار نہیں بننا پڑتا بلکہ اکثر چائلڈ لیبر کا عذاب جھیلتے بچوں کو بھی ان کے مالکان، ساتھی یا عمر میں بڑے لوگوں کا ’ستم‘ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کبھی چند پیسوں کے لالچ میں تو کبھی کام ملنے کے آسرے، تنخواہ بڑھنے یا کبھی دیگر فوائد کا سبز باغ دکھا کر ان کا بچپن داغ دار کردیا جاتا ہے۔

XS
SM
MD
LG