رسائی کے لنکس

خودکش حملے:کمسن بچے یہ تک نہیں جانتے کہ وہ کس راستے پرچل پڑے ہیں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اب إِس خبر نے کہ دس سال سے بھی کم عمر لڑکیوں کو اِن حملوں کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے، ملک میں خاصی بے چینی پیدا ہوگئی ہے

گذشتہ کچھ عرصےسے پاکستان میں ہونے والے خودکش حملوں میں زیادہ تر کمسن لڑکے ملوث پائے گئے ہیں۔اب إِس خبر نے کہ دس سال سے بھی کم عمر لڑکیوں کو اِن حملوں کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے، ملک میں خاصی بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔

قومی اسمبلی میں انسانی حقوق کے بارے میں قائمہ کمیٹی کے چیرمین ریاض فتیانہ سے پوچھا گیاکہ کیا یہ بچے اغوا ہوتے ہیں یا اپنی مرضی سے جہادی تنظیموں کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں، اُن کا جواب یہ تھا کہ ایسے بچوں کو سماج دشمن عناصر ورغلا کر’ برین واش‘ کرکے کہ اُنھیں بہت اچھی جگہ لے کر جارہے ہیں جہاں وہ جنت پہنچ جائیں گے، وہ تربیتی کیمپوں تک جا پہنچے ہیں، جہاں اُن کی خودکش بم بار بننے کی تربیت شروع ہوجاتی ہے۔ کیونکہ وہ کم عمر ہوتے ہیں اِس لیے اُنھیں اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کس راستے پر چل پڑے ہیں۔

یہ معلوم کرنے پر کہ ایسے بچوں کا زیادہ تر کس علاقے سے تعلق ہوتا ہے، ریاض فتیانہ نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں ایسے ادارے ہیں جہاں مدرسوں کا کافی رول رہا ہے جب کہ زیادہ تر بچے قبائلی علاقے اور صوبہٴ خیبر پختونخواہ سےاِن تربیتی کیمپوں تک پہنچے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب بچے گھروں سے غائب ہوجاتے ہیں تو پولیس کی طرف سے اِن کیسوں کی مفصل تفتیش نہیں کی جاتی۔ اِس کی روک تھام کےلیے انتظامیہ کی طرف سے کیا اقدامات ہونے چاہئیں، اُن کا کہنا تھا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ حکومت اپنے انٹیلی جنس اداروں کو مؤثر بنائے جب کہ مقامی عہدے داروں کو احکامات صادر کیے جانے چاہئیں کہ اِس طرح کی کسی اطلاع کی صورت میں بروقت قدم اُٹھائے جائیں۔ پھر بعض ایسے مدرسے جو انتہا پسندی اور دہشت گردی میں کردار ادا کررہے ہیں اُن کے متعلق حکومت کو کوئی ٹھوس فیصلہ کرنا چاہیئے، کیونکہ اُن پر کنٹرول کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔

’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز‘ کے سربراہ عامر رانا کا کہنا تھا کہ جِن بچوں کو جہادی تنظیموں سے بازیاب کرالیا گیا ہے اُن کے لیے بھی کوئی پروگرام ہونا چاہیئے۔

عامر رانا کے الفاظ میں قائم کیے گئے’بحا لی کےمراکز‘ میں ایسے بچوں کی بحالی کے کام کے بہتر نتائج سامنے آئے ہیں، جو اِس سے قبل سوات اور مالاکنڈ کے علاقے میں بغاوت کے بعد فوجی کارروائی کے نتیجے میں متاثرین میں شامل تھے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ کمسن بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کیا جائے اور اُنھیں مفید شہری بنایا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کےپاس بحا لی کا ایک کامیاب ماڈل موجود ہےجسےمزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔

اُن کے بقول، ایسے بچے جو گرفتار ہوگئے ہیں یا جِن کے بارے میں سکیورٹی فورسز کو شبہ ہے کہ وہ دہشت گردی میں ملوث ہو سکتے ہیں یا شدت پسندوں کے ہاتھ چڑھ سکتے ہیں، اُنھیں مستعدی کے ساتھ بازیاب کرانے کی کوششیں ہونی چاہئیں۔

عامر رانا نے تجویز پیش کی کہ سکیورٹی فورسز اسکولوں کی عمارتوں کو اپنے کیمپ کے طور پر استعمال کرنے سے احتراز کریں، کیونکہ، اُن کے بقول، جب کسی علاقے کے بچے اسکول نہیںٕ جائیں گے تو امکان اِسی بات کا ہی ہے کہ وہ شدت پسندوں کے ہاتھ چڑھ جائیں۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG