رسائی کے لنکس

بچوں کی گھٹتی ہوئی شرح پیدائش چین کا بڑا چیلنج کیوں بن رہی ہے؟ 


چین میں خاندان بڑھانے کا رجحان پیدا کرنے کے لئے حکومت ترغیبات کا اعلان کر رہی ہے۔
چین میں خاندان بڑھانے کا رجحان پیدا کرنے کے لئے حکومت ترغیبات کا اعلان کر رہی ہے۔

اگر چین اور بھارت میں پیدائش کی موجودہ شرح برقرار رہتی ہے، تو 2025 میں، یعنی صرف چار سال کے بعد، بھارت کی آبادی چین سے بڑھ سکتی ہے اور وہ سب سے زیادہ آبادی رکھنے والے ملک کا اعزاز اپنے نام کر سکتا ہے۔

چین میں آبادی کی اکثریت بچے پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی۔ آنگن سونے پڑے ہیں۔ بچوں کی کلکاریاں کم کم گھروں میں سنائی دیتی ہیں۔ حکومت کی ترغیبات کے باوجود جوڑے اپنا کنبہ بڑھانے پر مائل نہیں ہو رہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ گرتی ہوئی شرح پیدائش چین کو درپیش ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کے منفی اثرات کا سامنا اسے مستقبل قریب میں معاشی میدانوں میں کرنا پڑے گا۔

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، چین کی آبادی ایک ارب41 کروڑ ہے ۔گزشتہ دس سال کے عرصے میں چین کی آبادی میں محض 7 کروڑ 20 لاکھ نفوس کا اضافہ ہوا ہے۔ اضافے کی یہ شرح صفر کے بہت قریب ہے۔ چین میں اکثر جوڑوں کے ہاں کوئی بچہ نہیں ہے اور نہ ہی بچہ پیدا کرنے کی خواہش ہے۔

چین ایک درمیانی آمدنی والا ملک ہے۔ حکمران کمیونسٹ پارٹی آنے والے برسوں میں چین کو خوش حال اور امیر ملکوں کی صف میں لانا چاہتی ہے جس کے لیے معاشی سرگرمیوں میں تیزی لانا اور پیداوار بڑھنا ضروری ہے۔ لیکن بچوں کی پیدائش میں کمی سے کام کرنے کے قابل نوجوان افراد کی تعداد گھٹ رہی ہے، جب کہ بوڑھوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ چین کے وسائل کم اور آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی جس پر قابو پانے کے لیے حکومت نے1980 کے عشرے میں 'ایک کنبہ ایک بچہ' کی پالیسی سختی سے نافذ کر دی۔ آنے والے برسوں میں صنعتی اور معاشی ترقی نے تمام دستیاب کارکنوں کو روزگار فراہم کر دیا۔ لیکن چونکہ چین کی معیشت مسلسل تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے کارکنوں کی مانگ بڑھ رہی ہے مگر آبادی میں اضافے کی شرح گرنے سے دستیاب ورک فورس میں کمی آ رہی ہے۔

چین میں بچوں کی پیدائش کی شرح صفر کے قریب پہنچ رہی ہے جس سے ماہرین پریشان ہیں۔
چین میں بچوں کی پیدائش کی شرح صفر کے قریب پہنچ رہی ہے جس سے ماہرین پریشان ہیں۔


11 مئی کو جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2011 کے مقابلے میں اب چین میں کام کرنے کے قابل افراد کی تعداد تین کروڑ تک گھٹ چکی ہے۔ چین میں 15 سے 59 سال تک کے افراد کو ورک فورس میں شمار کیا جاتا ہے۔

گرتی ہوئی شرح پیدائش کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے 2015 میں حکومت نے 'ایک کنبہ ایک بچہ' کی پالیسی میں نرمی کرتے ہوئے دو بچوں کی نہ صرف اجازت دی بلکہ حوصلہ افزائی کے لیے ترغیبات بھی دیں۔ مگر معاشی ترقی کے نتیجے میں معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں جوڑوں کو بچے پیدا کرنے کی جانب راغب نہیں کر سکیں۔ اس کی بڑی وجہ کام کا بوجھ، چھوٹے گھر اور اپارٹمنٹ، محدود آمدنی اور کام کی جگہوں پر بچے پیدا کرنے والی خواتین کے ساتھ نامناسب برتاؤ ہے۔

چین میں کارکن خواتین کی اکثریت خاندان بڑھانے سے احتراز کرتی ہے، کیونکہ انہیں مناسب تعداد میں چھٹیاں نہیں ملتیں۔ کئی صورتوں میں ماؤں کے لیے ترقی کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں اور کئی ایک کو روزگار سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ بچے کی پرورش اور دیکھ بھال کے اخراجات پورے کرنا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اکثر خواتین مہنگی رہائش کی وجہ سے اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی ہوتی ہیں اور چھوٹے گھروں میں بچے رکھنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔

آبادی سے متعلق اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے چین کے شماریات بیورو کے ڈائریکٹر نینگ جی جے نے نیوز کانفرنس میں بتایا کہ پچھلے سال ملک بھر میں کل ایک کروڑ 20 لاکھ بچے پیدا ہوئے جو 2019 کے ایک کروڑ 46 لاکھ بچوں کے مقابلے میں 18 فی صد کم ہیں۔

چین میں بچوں کی تعداد کم ہو رہی ہے جب کہ عمر رسیدہ افراد بڑھ رہے ہیں۔
چین میں بچوں کی تعداد کم ہو رہی ہے جب کہ عمر رسیدہ افراد بڑھ رہے ہیں۔

اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت کی ترغیبات کے باوجود لوگ خاندان میں نئے فرد کا اضافہ کرنے میں دلچسپی نہیں لے ر ہے۔ اس صورت حال کو ماہرین 'آبادی کے ٹائم بم' کا نام دے رہے ہیں، جو صدر ژی جن پنگ کی حکومت کی عالمی سطح کی فوجی قوت بننے اور جدید ٹیکنالوجی کے فروغ کی خواہشات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

بیجنگ یونیورسٹی کے شعبہ آبادیات کے پروفیسر لیو جی ہوا کا کہنا ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ خدشہ یہ ہے کہ کل آبادی میں ورک فورس کا تناسب مسلسل گر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سن 2011 میں کام کرنے کی عمر یعنی 15 سے 59 سال کے افراد کی تعداد کل آبادی کا دو تہائی تھی، جو پیدائش کی موجودہ شرح کے پیش نظر2050 میں محض نصف رہ جائے گی۔

یہ وہی صورت حال ہے جس کا سامنا دنیا کے کئی ترقی یافتہ امیر ملکوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ جہاں بوڑھوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور کام کرنے کی عمر کا گروپ محدود ہو رہا ہے۔ وہ اس صورت حال کا مقابلہ بیرونی ملکوں سے کارکن بلا کر کر رہے ہیں۔ لیکن چین کے لیے ایسا کرنا فی الحال ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ اوسط آمدنی کا حامل ملک ہے۔

بچوں کی پیدائش میں کمی نے چین کے معاشرتی ڈھانچے پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ چین بنیادی طور پر ایک مشرقی روایات رکھنے والا ملک ہے، جہاں مردوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ ایک کنبہ ایک بچہ پالیسی کے دوران بچہ پیدا کرنے کی خواہش رکھنے والے لاکھوں جوڑوں نے لڑکے پیدا کرنے کو ترجیح دی اور لڑکی کی صورت میں حمل ضائع کرا دیے۔ اس مدت کے دوران ان گنت حمل ضائع ہوئے جس سے طبی پیچیدگیوں سمیت کئی اور طرح کے سماجی مسائل پیدا ہوئے۔ جن میں سب سے اہم بات عورتوں کی نسبت مردوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔

چین میں اب اکثر عورتیں خاندان بڑھانے سے احتراز کرتی ہیں۔
چین میں اب اکثر عورتیں خاندان بڑھانے سے احتراز کرتی ہیں۔

تازہ ترین اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس وقت چین میں ہر ایک سو عورتوں کے لیے تقریباً 106 مرد موجود ہیں۔ گویا مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد تین کروڑ 30 لاکھ کم ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے متمول چینی نوجوان بیرونی ملکوں میں شادیاں کر رہے ہیں جس سے کئی اور طرح کی پیچیدگیاں اور مسائل جنم لے رہے ہیں۔

چین کو ایک اور بڑا چیلنج اپنے پڑوسی ملک بھارت کا ہے جو نہ صرف معاشی ترقی کر رہا ہے بلکہ اس کی آبادی بھی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت بھارت کی آبادی ایک ارب 38 کروڑ ہے، یعنی چین سے محض ڈیڑھ فی صد کم۔ اقوام متحدہ کے اقتصادی امور اور سماجی معاملات کے ادارے کا کہنا ہے کہ اگر چین اور بھارت میں پیدائش کی موجودہ شرح برقرار رہتی ہے تو 2025 میں، یعنی صرف چار سال کے بعد، بھارت کی آبادی چین سے بڑھ سکتی ہے اور وہ سب سے زیادہ آبادی رکھنے والے ملک بن سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG