رسائی کے لنکس

اقوام متحدہ کے امن مشن میں چین کا کردار


اقوام متحدہ کے امن مشن میں چین کا کردار
اقوام متحدہ کے امن مشن میں چین کا کردار

چین ایک عرصے سے دوسرے ملکوں کے معاملا ت میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی پر کاربند رہا ہے تا کہ وہ اپنی سرحدوں کے باہر تنازعات میں غیر جانب دار نظر آئے۔ لیکن جیسے جیسے یہ ملک عالمی طاقت بن رہا ہے، اس کے لیے الگ تھلگ رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے امن قائم رکھنے کے مشن میں چین کا رول تبدیل ہو رہا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ چین قیامِ امن کی پالیسی میں زیادہ سرگرم کردار ادا کرنے پر مجبور ہو جائے۔

چین اقوامِ متحدہ میں 1971ء میں شامل ہوا تھا لیکن اقوامِ متحدہ کے پرچم تلے، اس نے قیامِ امن کے پہلے مشن میں 1990ء میں شرکت کی جب اس نے چند مبصر مشرقِ وسطیٰ بھیجے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے بیلفر سینٹر فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل افیئرز کی کورٹنی رچرڈسن کہتی ہیں کہ اس کے بعد سے اب تک، چین اقوامِ متحدہ کی قیامِ امن کی کوششوں میں مسلسل حصہ لیتا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’چین کی طرف سے اقوام متحدہ کی قیامِ امن کی سرگرمیوں میں شرکت کی سطح میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے، خاص طور سے اگر آپ اس بین الاقوامی ماحول کو ذہن میں رکھیں جس کا چین کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے اس سے زیادہ سرگرمی سے حصہ لینے کے لیے کہا جا رہا ہے، اور اس کے ساتھ ضروری ہے کہ وہ ابھرتی ہوئی فوجی طاقت کا منفی تاثر نہ دے۔‘‘

گزشتہ بیس برسوں میں، چین کی فوج اور پولیس کے بیس ہزار ارکان نے اقوامِ متحدہ کی امن فوج کا مخصوص نیلے رنگ کا لباس پہنا ہے۔ آج کل، تقریباً دو ہزار چینی اقوام متحدہ کی امن فوج میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔ یہ تعداد سلامتی کونسل کے کسی بھی دوسرے مستقل رکن کے عملے سے زیادہ ہے۔ رچرڈسن کہتی ہیں کہ ’’چینی اس ذمہ داری کو بڑی سنجیدگی سے پورا کرتے ہیں۔ بیرونی ملکوں میں چینی فوجیں صرف اسی کام کے لیے تعینات ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، یہ بات بھی سمجھنی چاہیئے کہ اس طرح چین کو اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع مل جاتا ہے اور چینیوں کے بارے میں مثبت خیالات کو فروغ ملتا ہے۔‘‘

دوسرے ملکوں میں مداخلت نہ کرنے کے عزم کے مطابق، چین نے کبھی لڑاکا فوجی تعینات نہیں کیے ہیں، دارفر میں انسانی مصائب کے دوران بھی نہیں۔ اس کے بجائے چین اقوامِ متحدہ کو مدد گار عملہ فراہم کرتا ہے، جیسے انجینیئرز، طبی عملہ اور پولیس افسر، تا کہ ایسٹ ٹائمور سے لے کر مغربی صحارا تک کے دور دراز علاقوں میں بنیادی سہولتوں کی تعمیر میں مدد ملے۔

نیوزی لینڈ کی وکٹوریا یونیورسٹی کے ریسرچ ڈائریکٹر مارک لانٹیجن نے کہا کہ ’’دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ چین کی قیامِ امن کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو اس کی سرگرمیاں چھوٹے سے درمیانے سائز کے ملکوں کی طرح رہی ہیں، جنہیں غیر جانب دار سمجھا جاتا ہے اور جو قیامِ امن کے مشن میں غیر جانبدار اور منصفانہ سکیورٹی فراہم کر سکتے ہیں۔ چین نے اس پہلو پر زور دینے کی کوشش کی ہے کہ اسے اپنے سکیورٹی کے خیالات، اپنی پالیسیاں، دوسرے ملکوں پر، خاص طور سے ترقی پذیر دنیا میں، مسلط کرنے میں دلچسپی نہیں ہے۔‘‘

تاہم، لیبیا کی حالیہ بے چینی اور خلفشار کے دوران ، چین کی یہ دیرینہ پالیسی بتدریج تبدیل ہوئی۔ چین نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے 14 دوسرے ارکان کے ساتھ مل کر، ایسی فوجی کارروائی کی حمایت کی جسے مکمل اتفاقِ رائے حاصل نہیں تھا۔ یہ کارروائی لیبیا کے عوام کے ساتھ قذافی کے سلوک کے جواب میں کی گئی تھی۔ کورٹنی رچرڈسن کے مطابق’’چین کے لیے یہ انتہائی اہم اقدام تھا۔ اگر آپ مکمل اتفاقِ رائے کے بغیر فوجی کارروائی کی حمایت کرتے ہیں تو پھر یہ اقدام آپ کی اس پالیسی سے متصادم ہوتا ہے کہ سیاسی طور پر کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت نہ کی جائے۔‘‘

مارک لانٹیجن کا خیال ہے کہ یہ تبدیلی چین کے اس احساس کے مطابق ہے کہ وہ اب ایک عالمی طاقت بن گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’چین نے اب خود کو ایک بڑی طاقت کے رول میں قبول کرنا شروع کر دیا ہے، اور ممکن ہے کہ وہ یہ بھی چاہتا ہو کہ اپنے مفادات کی دیکھ بھال میں زیادہ سرگرم ہو جائے۔‘‘

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے یکم جنوری کو اپنے عہدے کی دوسری پانچ سالہ مدت شروع کی۔ اس موقع پر انھوں نے چین کی سرکاری نیوز ایجنسی زن ہوا سے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ مستقبل میں عالمی امن اور ترقی میں چین انتہائی اہم کردار ادا کرے گا۔

جزیرہ نمائے کوریا سے لے کر جس کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں، سوڈان کے تیل کے کنوؤں تک، چین کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ زیادہ جانبدارانہ رول اختیار کرے، اگرچہ اس کی پوری کوشش یہی ہوگی کہ وہ ہر ملک کو اپنے غیر جانبدار ہونے کا تاثر دے۔

XS
SM
MD
LG