رسائی کے لنکس

روس اور چین کی خلاء میں شراکت، مغرب کے لئے باعثِ تشویش


چین کے صوبہ ہونان سے چانگ 5 کا چاند کا مشن خلا کی جانب پرواز بھرتے ہوئے۔ 24 نومبر 2020ء (فائل فوٹو)
چین کے صوبہ ہونان سے چانگ 5 کا چاند کا مشن خلا کی جانب پرواز بھرتے ہوئے۔ 24 نومبر 2020ء (فائل فوٹو)

چین اور روس نے سیٹلائٹ نیوی گیشن کے امریکی نظام (جی پی ایس) اور یورپ کے 'گیلیلیو' کے مقابلے کے لئے ٹیکنالوجی میں باہم شراکت کا آغاز کر دیا ہے اور دونوں ملکوں کے فوجی اور سٹریٹجک تعلقات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس سال کے شروع میں چین نے روس کے نیویگیشن سسٹم 'گلوناس' کی اپنی سرزمین سے مانیٹرنگ کی اجازت دی اور جواب میں روس نے چین کے 'بائے دو' نظام کا سٹیشن اپنے ہاں قائم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔

روس کا گلوناس سسٹم 1970 میں سوویت یونین کے زمانے میں قائم کیا گیا تھا جو فوجی مواصلات کا ایک تجرباتی نظام تھا، جسے سرد جنگ کے بعد کے سوویت یونین میں تجارتی حیثیت دے کر موسم، نیویگیشن، مواصلات اور تحقیق کے نظام کا درجہ دے دیا گیا۔

چین نے اپنا بائے دو نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم حال ہی میں قائم کیا ہے، جس کا اعلان گذشتہ برس چینی صدر نے کیا تھا اور اسے اس قابل بنایا گیا ہے کہ امریکی گلوبل پوزیشننگ سسٹم یا جی پی ایس کے مقابل لا کر اس کے ذریعے مواصلات، ہنگامی طبی امداد، اور شہری علاقوں کی منصوبہ بندی کی جا سکے۔

لندن سے وائس آف امریکہ کے لیے نامہ نگار ہنری رجوئل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ چین اور روس کے درمیان اس مفاہمت کو،تجزیہ کار اور کارنیگی ماسکو سنٹر میں ایشیا۔پیسیفک پروگرام کے سینئیر فیلو اور سربراہ، الیگزینڈر گابیف، بڑھتا ہوا تعاون خیال کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں مغرب کے ساتھ روس کے بڑھتے ہوتے اختلافات اور چین اور امریکہ کے درمیان دو عالمی طاقتوں کے طور پر مسابقت، یقینی طور پر ماسکو اور بیجنگ کے درمیان تعاون میں اضافے کا باعث ہے۔

تاہم وہ کہتےہیں کہ سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم سے متعلق شراکت کے نتائیج سامنے آنے میں کچھ وقت لگے گا۔

ان کے مطابق، "روس اب بھی گلوناس پر بہت انحصار کرتا ہے مگر وہاں جی پی ایس کا بھی استعمال ہوتا ہے، جبکہ بائے دو سے منسلک منصوبوں کا ابھی زیادہ علم نہیں ہے۔ "

سیٹلائٹس

ماہرین کے مطابق سیٹلائٹس کو فوجی طاقت کے لئےاکیسویں صدی کا ایک اہم عنصر خیال کیا جاتا ہے۔ گذشتہ ماہ روس نے اپنے سیٹلائٹ کے مقابل ایک میزائل کا تجربہ کیا جس کے بارے میں امریکہ نے کہا کہ اسکا ملبہ بین الا قوامی خلائی سٹیشن پر خلاء بازوں کے لئے خطرہ بنا۔

امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے 17نومبر کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ،"سب سے زیادہ پریشان کن بات اس سے بین الاقوامی برادری کو درپیش خطرہ ہے۔ اس سے سٹریٹجک استحکام کی اہمیت کم ہوتی ہے۔"

روس، چین اور امریکہ ان متعدد ممالک میں شامل ہیں جو ہائپر سونک میزائل تیار کررہے ہیں۔ جو خلاء کی بالائی سطح تک آواز سے پانچ گنا زیادہ رفتار سے پہنچتے ہیں۔

خلائی معاہدہ

روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ امریکہ روس۔چین مشترکہ خلائی معاہدے میں شامل ہونے میں ناکام رہا ہے۔

لاوروف نے کہا، "انہوں نے خلاء کو ہتھیاروں کی دوڑ سے پاک رکھنے کے لئے کسی معاہدے کی خاطر روس اور چین کے اقدام کو کئی سال تک نظر انداز کیا ہے۔ بلکہ وہ اس کے بجائے عالمگیر ضابطوں پر زور دیتے رہے۔"

تاہم، تجزیہ کار الیگزینڈر گابیف کہتے ہیں کہ روس اور چین کے درمیان تعاون کی بھی حدود ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے متوازی چل رہے ہیں۔

بھارت

گابیف یہ بھی کہتے ہیں کہ روس کا تعاون چین سے زیادہ بھارت کے ساتھ رہا ہے۔ جس میں 1990 میں 'برہماس' نامی مشترکہ کروز میزائل سسٹم کا قیام بھی شامل ہے۔

گابیف کہتے ہیں بھارتی رفقاء کے ساتھ مل کر 'برہماس' کے قیام سے روس خود کو محفوظ تصور کرتا رہا ہے۔ اب روس اور چین کے درمیان فوجی تعاون گہرا ہوتا جا رہا ہے جو یقیناً مغرب کے لئے ایک چیلنج ہے۔ "

بھارت نے چین کی طاقت کے مقابلے کے لئے روس سے ایس۔400 میزائل دفاعی سسٹم خریدا ہے جو نئی دہلی کے ایک اور حلیف، امریکہ کی برہمی کا باعث ہے اور ایک تبدیل ہوتے عالمی نظام میں فوجی تعلقات کی پیچیدگی کا اظہار بھی۔

XS
SM
MD
LG