واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما اِسی ہفتے ایشیائی ممالک کے دورے کا آغاز کرنے والے ہیں، ایسے میں جب چین کے علاقائی عزائم کے بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ یوکرین میں روس کی حالیہ کارروائیوں کے بعد، یہ تشویش اور بڑھ چکی ہے۔ اور، یہ امکان کہ ہمسایوں کے ساتھ اپنے علاقائی تنازعات نمٹانے کے لیے چین کے حکمت عملی ساز کرائمیا کے ماڈل پر ہی نہ چل پڑیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نامہ نگار، بِل آئیدے نے بیجنگ سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بظاہر یوکرین کے معاملات کا دنیا کے اس بے پناہ متحرک خطے سے، جو عالمی معیشت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے، کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن، یقینی طور پر امریکی اہل کار اس طرف دھیان دے رہے ہیں۔
گذشتہ ماہ انڈونیشیا میں سلامتی سے متعلق ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، بحر الکاہل میں تعینات امریکی بحری بیڑے کے کمانڈر، ایڈمرل ہیری ہیرس نے علاقے کے تمام ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ بحرالکاہل میں کرائمیا کی طرح کی صورتِ حال پیدا نہ ہونے سے نجات کے لیے مل کر کام کریں۔
اس سے قبل اپریل میں، معاون امریکی وزیر خارجہ برائے مشرقی ایشیا اور پیسیفک امور، ڈینئل رسل نے امریکی قانون سازوں کو بتایا تھا کہ امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے روس پر لگائی جانے والی تعزیرات کے پیش نظر، چین میں بیٹھے ہوئے کسی پالیسی ساز کو چونکا دیا ہوگا، جو کسی طور، کرائمیا کے ماڈل اختیار کرنے کا سوچ رہے ہوں۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ لاگو کی گئی قدغنوں کے نتیجے میں چین پر دباؤ پڑا ہے، تاکہ وہ علاقے کے تنازعات کے پُرامن حل کے لیے اپنے عزم کا مظاہرہ کرے۔
بحیرہ مشرقی چین کے جزیروں پر تنازع کے معاملے پر، گذشتہ دو برس کے دوران چین نے جاپان پر دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔
چین نے اپنا دعویٰ منوانے کے لیے ساحلی محافظوں کی چوکسی بڑھا دی ہے اور ڈرون طیارے روانہ کیے ہیں۔ گذشتہ سال کے آخر میں، چین نے من مانی کرتے ہوئے، فضائی دفاع کا شناختی زون قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، جس میں یہ جزیرے شامل ہیں۔
ژان پیرے شباستن، ہانگ کانگ کی ’بیپٹسٹ یونیوریٹی‘ میں سیاسیات کے سائنس داں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ واضح طور پر معاملات کو جوں کے توں نہ رہنے دینا چین کے حق میں نہیں لگتا۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ ایشیا میں چین کے تنازعات اور جزیرہ نما کرائمیا میں کیا کچھ ہوا، دونوں حالات مختلف ہیں۔
باوجود اس کے، شباستن کا کہنا ہے کہ یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہوگی آیا کرائمیا میں جو کچھ روس نے کیا، آیا بالآخر چین بھی اُسی ڈگر پر چل پڑے گا۔
مشرقی بحیرہ چین میں غیرآباد جزیروں پر تنازع کا معاملہ، جسے جاپان میں ’سینکاکس‘ اور چین میں ’جزائر دیاؤ‘ کہا جاتا ہے، چین کے آپشن محدود ہیں۔
اِن جزیروں کا کنٹرول جاپان ہی کے پاس ہے، اور ماضی میں چینی سرگرم کارکنوں کی طرف سے جزیروں پر آکر بسنے کی کوششیں زیادہ دیر تک کارگر ثابت نہیں ہو پائیں۔
ژی تاؤ، بیجنگ کی یونیورسٹی برائے تعلیمات میں شعبہ امور ِخارجہ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت چین ماہی گیروں یا دیگر افراد کو اِن جزائر پر بسنے میں مدد فراہم کرکے یہ سمجے کہ کچھ عرصے کے بعد، اُس کے حق میں اقتدار اعلیٰ کا اعلان ہو سکے گا، تو یہ لاحاصل بات ہوگی۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اِن تنازعات میں کسی فریق کی حمایت نہیں کرتا، چاہے یہ مشرقی یا جنوبی بحیرہ چین کے معاملات ہوں۔ تاہم، امریکہ کی طرف سے اپنے مؤقف میں توازن کی غرض سے کی جانے والی سفارتی، معاشی، سیاسی اور سلامتی کے تعلقات پر مبنی کوششوں پر چین تشویش ظاہر کرتا ہے۔
چند ہی دِنوں کے اندر، جب صدر اوباما اپنے دورے پر روانہ ہونے والے ہیں، جاپان نے اپنی فوج کی موجودگی کو وسعت دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے، مشرقی بحیرہ چین کے متنازع علاقے کے قریب ایک جزیرے پر فوجیں تعینات کر دی ہیں اور ریڈار نصب کیا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ وہ علاقے میں اپنے تنازعات کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کا خواہاں ہے، اور اُس نے جاپان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنی فوجی موجودگی میں اضافے کو جائز قرار دینے کے لیے علاقائی معاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔
خطے کے چار ملکی دورے میں، صدر اوباما کا پہلا قیام جاپان میں ہوگا، جس میں جنوبی کوریا اور دو دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ملک شامل ہیں، جن کے بحیرہ جنوبی چین میں چین کے ساتھ علاقائی تنازعات چل رہے ہیں۔ یہ ممالک ہیں فلپینز اور ملائیشیا۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نامہ نگار، بِل آئیدے نے بیجنگ سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بظاہر یوکرین کے معاملات کا دنیا کے اس بے پناہ متحرک خطے سے، جو عالمی معیشت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے، کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن، یقینی طور پر امریکی اہل کار اس طرف دھیان دے رہے ہیں۔
گذشتہ ماہ انڈونیشیا میں سلامتی سے متعلق ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، بحر الکاہل میں تعینات امریکی بحری بیڑے کے کمانڈر، ایڈمرل ہیری ہیرس نے علاقے کے تمام ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ بحرالکاہل میں کرائمیا کی طرح کی صورتِ حال پیدا نہ ہونے سے نجات کے لیے مل کر کام کریں۔
اس سے قبل اپریل میں، معاون امریکی وزیر خارجہ برائے مشرقی ایشیا اور پیسیفک امور، ڈینئل رسل نے امریکی قانون سازوں کو بتایا تھا کہ امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے روس پر لگائی جانے والی تعزیرات کے پیش نظر، چین میں بیٹھے ہوئے کسی پالیسی ساز کو چونکا دیا ہوگا، جو کسی طور، کرائمیا کے ماڈل اختیار کرنے کا سوچ رہے ہوں۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ لاگو کی گئی قدغنوں کے نتیجے میں چین پر دباؤ پڑا ہے، تاکہ وہ علاقے کے تنازعات کے پُرامن حل کے لیے اپنے عزم کا مظاہرہ کرے۔
بحیرہ مشرقی چین کے جزیروں پر تنازع کے معاملے پر، گذشتہ دو برس کے دوران چین نے جاپان پر دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔
چین نے اپنا دعویٰ منوانے کے لیے ساحلی محافظوں کی چوکسی بڑھا دی ہے اور ڈرون طیارے روانہ کیے ہیں۔ گذشتہ سال کے آخر میں، چین نے من مانی کرتے ہوئے، فضائی دفاع کا شناختی زون قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، جس میں یہ جزیرے شامل ہیں۔
ژان پیرے شباستن، ہانگ کانگ کی ’بیپٹسٹ یونیوریٹی‘ میں سیاسیات کے سائنس داں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ واضح طور پر معاملات کو جوں کے توں نہ رہنے دینا چین کے حق میں نہیں لگتا۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ ایشیا میں چین کے تنازعات اور جزیرہ نما کرائمیا میں کیا کچھ ہوا، دونوں حالات مختلف ہیں۔
باوجود اس کے، شباستن کا کہنا ہے کہ یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہوگی آیا کرائمیا میں جو کچھ روس نے کیا، آیا بالآخر چین بھی اُسی ڈگر پر چل پڑے گا۔
مشرقی بحیرہ چین میں غیرآباد جزیروں پر تنازع کا معاملہ، جسے جاپان میں ’سینکاکس‘ اور چین میں ’جزائر دیاؤ‘ کہا جاتا ہے، چین کے آپشن محدود ہیں۔
اِن جزیروں کا کنٹرول جاپان ہی کے پاس ہے، اور ماضی میں چینی سرگرم کارکنوں کی طرف سے جزیروں پر آکر بسنے کی کوششیں زیادہ دیر تک کارگر ثابت نہیں ہو پائیں۔
ژی تاؤ، بیجنگ کی یونیورسٹی برائے تعلیمات میں شعبہ امور ِخارجہ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت چین ماہی گیروں یا دیگر افراد کو اِن جزائر پر بسنے میں مدد فراہم کرکے یہ سمجے کہ کچھ عرصے کے بعد، اُس کے حق میں اقتدار اعلیٰ کا اعلان ہو سکے گا، تو یہ لاحاصل بات ہوگی۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اِن تنازعات میں کسی فریق کی حمایت نہیں کرتا، چاہے یہ مشرقی یا جنوبی بحیرہ چین کے معاملات ہوں۔ تاہم، امریکہ کی طرف سے اپنے مؤقف میں توازن کی غرض سے کی جانے والی سفارتی، معاشی، سیاسی اور سلامتی کے تعلقات پر مبنی کوششوں پر چین تشویش ظاہر کرتا ہے۔
چند ہی دِنوں کے اندر، جب صدر اوباما اپنے دورے پر روانہ ہونے والے ہیں، جاپان نے اپنی فوج کی موجودگی کو وسعت دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے، مشرقی بحیرہ چین کے متنازع علاقے کے قریب ایک جزیرے پر فوجیں تعینات کر دی ہیں اور ریڈار نصب کیا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ وہ علاقے میں اپنے تنازعات کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کا خواہاں ہے، اور اُس نے جاپان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنی فوجی موجودگی میں اضافے کو جائز قرار دینے کے لیے علاقائی معاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔
خطے کے چار ملکی دورے میں، صدر اوباما کا پہلا قیام جاپان میں ہوگا، جس میں جنوبی کوریا اور دو دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ملک شامل ہیں، جن کے بحیرہ جنوبی چین میں چین کے ساتھ علاقائی تنازعات چل رہے ہیں۔ یہ ممالک ہیں فلپینز اور ملائیشیا۔