رسائی کے لنکس

ڈاکٹر فورڈ کا بیان حلفی: میں خوفزدہ ہوں مگر شہادت دینا میری ذمہ داری ہے


کرسٹین فورڈ سپریم کورٹ کے نامزد اُمیدوار جج کیوانو پر جنسی ہراس کے الزام سے متعلق بیان حلفی دے رہی ہیں۔
کرسٹین فورڈ سپریم کورٹ کے نامزد اُمیدوار جج کیوانو پر جنسی ہراس کے الزام سے متعلق بیان حلفی دے رہی ہیں۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے سپریم کورٹ کیلئے نامزد جج بریٹ کیوانو پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کرنے والی خاتون ڈاکٹر کرسٹین فورڈ نے سینیٹ کی جوڈیشل کمیٹی کے روبرو اپنا بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب سے 36 سال پہلے زمانہ طالب علمی کے دوران بریٹ کیوانو نے اُن پر جنسی حملہ کیا تھا اور اُنہیں خدشہ تھا کہ اس حملے کے دوران وہ اُنہیں اتفاقی طور پر قتل بھی کر سکتے تھے۔

ڈاکٹر فورڈ کے علاوہ دو مزید خواتین ڈیبرا رمیرز اور جولی سویٹ نِک نے بھی کیوانو پر 1980 کی دہائی کے دوران جنسی زیادتی کا الزام لگایا ہے۔ رمیرز کا کہنا ہے کہ 1983-84 کے تعلیمی سال کے دوران ایک پارٹی میں کیوانو نے اُنہیں نشے کی حالت میں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا جب وہ اور کیوانو ییل یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے جبکہ تیسری خاتون جولی سویٹ نِک کا کہنا ہے کہ 1982 میں جب اُن کی عصمت دری کی گئی تو کیوانو بھی وہاں موجود تھے۔

ڈاکٹر کرسٹین فورڈ نے بتایا کہ 1982 میں وہ اور جج بریٹ کیوانو میری لینڈ میں ہائی سکول کے طالب علم تھے اور یہ واقعہ مبینہ طور پر طلبا کی ایک پارٹی کے دوران پیش آیا۔

سینیٹ کی جوڈیشل کمیٹی کے ارکان کرسٹین فورڈ کا بیان سن رہے ہیں
سینیٹ کی جوڈیشل کمیٹی کے ارکان کرسٹین فورڈ کا بیان سن رہے ہیں

سینیٹ کی جوڈیشنل کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں ڈاکٹر فورڈ نے کہا کہ وہ اس لئے یہ بیان نہیں دے رہی ہیں کہ وہ ایسا کرنا چاہتی تھیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خوفزدہ ہیں۔ اپنا تحریری بیان پڑھتے ہوئے ڈاکٹر فورڈ متعدد بار اشکبار ہوئیں۔

فورڈ کیلی فورنیا کی پالو آلٹو یونیورسٹی میں نفسیات کی پروفیسر ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ نشے میں دھت بریٹ کیوانو نے اس تقریب میں اُن پر جنسی حملہ کیا اور اُن کا لباس اتارنے کی کوشش کی۔ اُن کے مطابق، کیوانو کی عمر اُس وقت 17 برس تھی جبکہ وہ خود 15 سال کی تھیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ کیوانو اُن کی عصمت دری کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس حملے کے دوران چیختی رہیں جبکہ کیوانو اور اُن کا ایک ساتھی نشے کی حالت میں زور زور سے ہنستے رہے۔ فورڈ نے کہا کہ جب اُنہوں نے چیخنا شروع کیا تو کیوانو نے اُن کے منہ پر ہاتھ دیا۔ تاہم، کیوانو اور اُن کے ساتھی نشے کی وجہ سے بستر سے نیچے گر گئے اور اُنہوں نے وہاں سے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔

جج کیوانو نے ایک تحریری بیان میں ڈاکٹر فورڈ اور دیگر دو خواتین کی طرف سے اُن پر عائد کئے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ بیان میں اُنہوں نے کہا کہ جنسی حملہ خوفناک اور غیر قانونی ہے اور ایسا کرنا اُن کے مذہبی اعتقاد کے خلاف ہے۔

ڈاکٹر فورڈ کے بعد جج کیوانو کو بھی سینیٹ جوڈیشل کمیٹی کے روبرو اپنا بیان دینے کیلئے مدعو کیا گیا ہے۔

امریکہ کی حالیہ تاریخ میں اس سے پہلے 1991 میں جج کلیئرنس ٹامس کی نامزدگی کے وقت انیتا ہِل نامی ایک خاتون نے اُن پر جنسی ہراس کا الزام لگایا تھا۔ تاہم، وہ سینیٹ سے توثیق حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور وہ اس وقت بھی سپریم کورٹ کے جج ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ ڈاکٹر فورڈ کی شہادت کو زیادہ سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے اور اُن کی شہادت جج کیوانو کی توثیق کے مرحلے پر ممکنہ طور پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

جج کیوانو کی توثیق کا معاملہ رپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان ایک سیاسی اکھاڑے کی سی کیفیت اختیار کر گیا ہے اور رپبلکن پارٹی کے وہ چند سینیٹر اس معاملے میں اہمیت اختیار کر گئے ہیں جنہوں نے ابھی کیوانو کے حق میں یا پھر مخالفت میں ووٹ دینے کا فیصلہ نہیں کیا۔ ایسے ہی رپبلکن سینیٹرز میں جوڈیشل کمیٹی کے رکن جیف فلیک بھی شامل ہیں۔

فاکس نیوز سے وابستہ امریکہ کے معروف ٹیلی ویژن اینکر اور سیاسی تجزیہ کار کرس والس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کرسٹین فورڈ کی جوڈیشل کمیٹی میں شہادت رپبلکن پارٹی کیلئے تباہ کن ثابت ہوگی۔ سی این بی سی ٹیلی ویژن کے اینکر اور سیاسی مبصر لارنس اوڈونل کہتے ہیں کہ ڈاکٹر فورڈ نے اپنی شہادت میں جج کیوانو کے ساتھ مارک جج کی موجودگی کا بھی ذکر کیا ہے۔ لہذا جوڈیشل کمیٹی کو چاہئیے کہ اُن بھی شہادت کیلئے طلب کیا جائے تاکہ واقعات کی ٹائم لائن کا بہتر طور پر اندازہ لگایا جا سکے۔

سینیٹ میں اس وقت رپبلکن پارٹی کو ڈیموکریٹک ارکان کے مقابلے میں معمولی اکثریت حاصل ہے۔ اس وقت سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان کی تعداد 49 اور رپبلکن پارٹی کے سنیٹرز کی تعداد 51 ہے۔ یوں بعض تجزیہ کہتے ہیں کہ اگر رپبلکن پارٹی کے کچھ ارکان ڈاکٹر فورڈ کے حق میں فیصلہ دیں تو جج کیوانو کی توثیق خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

شیڈیول کے مطابق سینیٹ کی جوڈیشل کمیٹی کے ارکان کی ووٹنگ جمعہ کے روز ہوگی اور پھر سینیٹ میں حتمی ووٹنگ کا انعقاد اگلے ہفتے کے شروع میں ہوگا۔

صدر ٹرمپ نے جولائی میں ریٹائر ہونے والے سپریم کورٹ کے جج اینٹنی کینیڈی کی خالی ہونے والی سیٹ کیلئے جج کیوانو کو نامزد کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG