قوم پرست رہنما سائیں جی ایم سید کی سالگرہ کی تقریب میں ہنگامہ آرائی کے بعد رینجرز اور پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں کم از کم ایک شخص شدید زخمی ہوگیا۔ پولیس نے اس دوران متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا ہے۔ کشیدگی کے بعد سن شہر میں موبائل فون سروس بھی معطل کردی گئی۔
تفصیلات کے مطابق منگل کو سن شہر میں قوم پرست رہنما اور تقسیم ہند سے قبل متحدہ ہندوستان میں سندھ اسمبلی میں سب سے پہلے پاکستان کے حق میں قرارداد پیش کرنے والے رہنما غلام مرتضیٰ سید کی، جو جی ایم سید کے نام سے جانے جاتے ہیں، 119 ویں سالگرہ ان کے مزار کے احاطے اور شہر میں منائی جارہی تھی۔ اس میں شرکت کے لیے صوبے بھر کے دور دراز علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد پہنچی۔ دن بارہ بجے تک سندھ یونائیٹڈ پارٹی کی جانب سے جاری تقریب میں جی ایم سید کے پوتے اور پارٹی سربراہ سید جلال محمود شاہ اور دیگر رہنما بھی شریک تھے۔
مقامی صحافیوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہنگامہ آرائی سندھ یونائیٹڈ پارٹی کی تقریب کے بعد اس وقت شروع ہوئی جب جئے سندھ قومی محاذ اور جئے سندھ متحدہ محاذ کے زیرانتظام، جو علیحدگی کی حامی جماعتیں ہیں، تقریبات جاری تھیں۔ ان تقاریب میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شریک تھیں۔ تقریب میں بعض افراد نے پاکستان مخالف نعرے بازی کی۔ اس پر رینجرز اور پولیس کی جانب سے مظاہرین پر پہلے لاٹھی چارج کرکے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی گئی، جواب میں مظاہرین نے رینجرز اور پولیس پر پتھراو کیا۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مظاہرین نے پولیس موبائل کو بھی آگ آگ لگادی۔
جئے سندھ قومی محاذ کے ایک مرکزی رہنما الہٰی بخش بکوک کا کہنا ہے کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی سالگرہ کی تقریبات کے سلسلے میں ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پہلے تو پولیس اور رینجرز کی کوشش تھی کہ اتنا بڑا اجتماع ہونے سے روکا جائے اور اس کے لیے سن جانے والی بسوں کو روکا گیا۔ اس مقصد کے لیے رات ہی سے سن شہر کے اردگر اور پورے ضلع میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور رینجرز کے اہل کار تعیینات کیے گئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود بھی لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی۔ جس پر رینجرز اور پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور پھر حالات قابو میں نہ آنے بعد آنسو گیس کی شیلنگ اور پھر فائرنگ کی گئی۔
ادھر سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر زین شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ لوگوں کو بلا وجہ اشتعال دلانے کے لیے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کو سائیں جی ایم سید کے مزار کے قریب تعینات کیا گیا۔ جس سے حالات مزید خراب ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا کرنے کی ذمہ داری پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ سالگرہ کی تقریب نہ منائی جائے لیکن یہ ہر سال کی طرح اس سال بھی ہوئی۔ جب کہ صحافیوں کو بھی سالگرہ کی تقریب کی کوریج کرنے سے روکا گیا۔
اگرچہ اس حوالے سے انتظامیہ کا اب تک کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے تاہم جامشورو پولیس کے سینئیر افسر نے نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رینجرز نے اس وقت بعض افراد کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جب مجمع میں شامل افراد کی جانب سے ملک مخالف نعرے لگائے گئے۔ ان میں سے بعض کے پاس اسلحہ بھی موجود تھا اور پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ کے بعد پہلے مظاہرین کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ جس کے جواب میں سیکیورٹی فورسز کو بھی جوابی فائرنگ کرنا پڑی۔
ہنگاموں پر سندھ یونائیٹڈ پارٹی کی جانب سے صوبے بھر میں بدھ کے روز احتجاج کی کال دی گئی جب کہ سن اور اردگر کے علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بھی کئی گھنٹوں سے معطل ہے۔
سائیں جی ایم سید کا شمار سندھ سے قیام پاکستان کی حمایت میں آگے آگے رہنے والوں میں ہوتا ہے لیکن پاکستان کے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے متنبہ کیا کہ ملک بہت تیزی سے انتہا پسند قیادت کے ہاتھوں میں جارہا ہے۔ جی ایم سید نے بعد میں کھل کر پاکستان کے قیام کی مخالفت کی اور سندھ کو الگ وطن یعنی سندھو دیش بنانے کا نعرہ لگایا۔ جس پر انہیں کئی بار جیل جانا پڑا اور ان پر بغاوت سمیت کئی مقدمات بھی قائم کیے گئے اور انہیں ان کی رہائش گاہ ہی میں ان کی وفات تک نظر بند رکھا گیا۔
سائیں جی ایم سید سندھی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھنے کے ساتھ درجنوں کتابوں کے بھی مصنف ہیں۔ ان کی زیادہ تر تصانیف سیاست، مذہب، صوفی ازم، سندھی قومیت اور ثقافت اور سندھی قوم پرستی کے موضوعات پر ہیں۔ 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد سید صاحب نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے " سندھو دیش" کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ سندھ میں اکثر قوم پرست اور علیحدگی پسند تحریکیں انہیں اپنا بانی قرار دیتی آئی ہیں۔