رسائی کے لنکس

رنگ دار پروں کے ڈائنوسار کی دریافت


رنگ دار پروں والا ڈائنوسار
رنگ دار پروں والا ڈائنوسار

طویل عرصے سے سائنس دانوں میں یہ مفروضہ عام تھا کہ عام طورپر ڈائنوسار بھورے یا سرمئی رنگوں کے ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب ایک قدیم ڈائنوسار کی کچھ باقیات پر تحقیق کرنے والے ماہرین کو اس بارے میں نئے شواہد ملے ہیں کہ پررکھنے والی ڈائنوسار کی ایک نسل کے پروں کے رنگ انتہائی شوخ تھے۔ اس تحقیق سے ڈائنوساروں کی ظاہری شکل و شباہت کے بارے میں سائنس دانوں کے علم میں اضافہ ہو ہے اور انہیں یہ بھی جاننے میں مدد ملی ہے کہ ان کا طرزِ عمل کیا تھا۔

امریکہ اور چین کے سائنس دانوں نے 15 کروڑ سال پرانے ایک ڈائنوسار کے پروں کی باقیات کو از سرنو جوڑا۔ ڈائنوسار کی یہ نسل پروں کے باوجود اڑ نہیں سکتی تھی۔ بلی کی جسامت کا یہ ڈائنوسار huxleyi Anchiornis کے نام سے موسوم ہے۔ ماہرین نے اس کے 30 پروں کی باقیات کو جوڑنے کے لیے ایک الیکٹرانی خوردبین سے مدد لی۔

تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے اپنی توجہ پروں میں پائے جانے والے ایک کیمیائی مادے melanosome پر مرکوز کی جو پرندوں کے پروں کو ایک مخصوص رنگ دیتا ہے۔ ماہرین نے اس مرکب کا موزانہ زندہ پرندوں کے پروں میں پائے جانے والے اسی نوعیت کے مرکب سے کیا، جس سے انہیں یہ اندازہ لگانے میں مدد ملی کہ ڈائنوسار کی اس نسل کے پروں کی رنگت کیا تھی۔

کنیٹی کٹ کی ییل یونیورسٹی کے ایک سائنس دان رچرڈ پرم کا کہناہے کہ اس ڈائنوسار کی باقیات چین کے صوبے لی ہوننگ سے خاصی اچھی حالت میں دریافت ہوئی تھیں۔وہ کہتے ہیں کہ اس کی باقیات کوجوڑنا بے حد دشوار عمل ہے۔

ماہرین کی تحقیق کے مطابق اس ڈائنوسار کی رنگت زیادہ تر سرمئی تھی۔ اور سرسے پاؤں تک اس پر چمک دار بال تھے۔ پرم کہتے ہیں کہ اس کی کلغی ہلکے بھورے رنگ کی تھی، پر انتہائی سفید تھے اور ہرایک پر کا سرا کالے رنگ کا تھا۔ اس کی ٹانگوں پر بھی کچھ پر تھے اور ان کا رنگ بھی اسی طرح سفید اور سیاہ تھا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ڈائنوسار کی یہ نسل آج کےدور میں زندہ ہوتی تو اس کا شمار ایک خوبصورت جانور کے طور پر کیا جاتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈائنوسار کی یہ قسم موجودہ دور کی چتکبری مرغی (ہیمبرگ) سے مشابہت رکھتی تھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ وہ پروں والے اس ڈائنوسار کی تقربیاً 90 فی صد تک ظاہری شکل بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔پرم کہتے ہیں کہ سائنس دان پررکھنے والے ڈائنوساروں کی دوسروں نسلوں کے رنگوں کا کھوج لگانے کے لیے یہی طریقہ اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

پرم کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے پر دار ڈائنوساروں کی اس نسل کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے میں مدد ملی ہے جو کروڑوں سال پہلے دنیا سے معدوم ہوگئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں توقع ہے کہ اس تحقیق کے نتیجے میں اگلے چند برسوں میں بہت سے جانداروں کے حوالے یہ معلوم ہوسکے گا کہ ان کے بدن کس رنگ کے تھے اور رنگوں کا انداز کیا تھا۔

لیکن مسٹر پرم کہتے ہیں کہ اس بارے میں ایک مشکل یہ ہے کہ کسی ایک ڈائنوسار کے اتنی تعداد میں پروں کا ملنا دشوارہے جنہیں جوڑ کر اس کا رنگ تعین کرنے میں مدد مل سکے۔

سائنس دانوں کی ایک اور ٹیم نے حال ہی میں کہا ہے کہ انہوں نے پرم اور ان کے ساتھیوں کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے دو مختلف ڈائنوساروں کےرنگوں کا سراغ لگایا ہے۔

پررکھنے والے قدیم ڈائنوساروں کی ظاہری شکل و شبہات پر یہ مطالعاتی رپورٹ معروف سائنسی جریدے ’سائنس‘ میں شائع ہوئی ہے۔

XS
SM
MD
LG