رسائی کے لنکس

پرچے میں 'قابلِ اعتراض' سوال پوچھنے پر کامسیٹس یونیورسٹی کے لیکچرار برطرف


سوشل میڈیا پر معاملہ سامنے آنے پر مضمون کے موضوع کے انتخاب پر تنقید کی جا رہی ہے ۔
سوشل میڈیا پر معاملہ سامنے آنے پر مضمون کے موضوع کے انتخاب پر تنقید کی جا رہی ہے ۔

اسلام آباد کی کامسیٹس یونیورسٹی نے امتحان میں طلبہ سے قابلِ اعتراض مضمون لکھوانے والے استاد کو برطرف کر دیا ہے۔

وفاقی وزارت برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبے الیکٹرک انجینئرنگ میں انگریزی کے پہلے سیمسٹر کے امتحان میں قابلِ اعتراض سوال کا نوٹس لیا تھا اور یونیورسٹی کو تنبیہ کی تھی کہ طلبہ سے ایسا مضمون لکھوانے والے استاد کے خلاف کارروائی کی جائے۔

وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے نوٹس کے مطابق یہ پرچہ چار یا پانچ دسمبر 2022 کو لیا گیا تھا جس میں طلبہ سے انتہائی قابلِ اعتراض مضمون لکھنے کا کہا گیا تھا جو نہ صرف پاکستان کے قانون کے خلاف ہے بلکہ اس سے طلبہ کے والدین کی بھی دل آزاری ہوئی ہے۔

سوشل میڈیا پر معاملہ سامنے آنے پر مضمون کے موضوع کے انتخاب پر جہاں تنقید کی جا رہی ہے وہیں یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔

پرچے میں بھائی اور بہن کے درمیان جنسی تعلق سے متعلق ایک فرضی صورتِ حال بیان کرتے ہوئے طلبہ سے اس پر رائے اور متعلقہ مثالیں مانگی گئی تھیں۔

'جولی اینڈ مارک سینیاریو' کے عنوان سے دیے جانے والے سوال میں کہا گیا تھا کہ جولی اور مارک بھائی بہن ہیں جو کالج کی چھٹیوں میں فرانس جاتے ہیں۔ ایک ساحل پر واقع کیبن میں رات گزارنے کے دوران وہ جنسی تعلق قائم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

سوال میں کہا گیا تھا کہ دونوں اس تعلق سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔

یہ سیناریو بیان کرنے کے بعد طلبہ سے پوچھا گیا تھا کہ اس واقعے پر ان کی کیا رائے ہے اور آیا وہ اسے درست سمجھتے ہیں۔

پرچے میں طلبہ سے اس فرضی صورتِ حال پر 300 الفاظ پر مشتمل مضمون لکھنے کا کہا گیا تھا جس میں ان سے بھائی اور بہن کے درمیان جنسی تعلق کے بارے میں ذاتی معلومات پر مبنی مثالیں اور رائے بھی مانگی گئی تھی۔

'لیکچرار نے غلطی تسلیم کر لی تھی'

اس بارے میں کامسیٹس یونیورسٹی کے ایڈیشنل رجسٹرار نوید خان نے پرچے میں قابلِ اعتراض حصہ شامل ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ واقعے کے بعد لیکچرار کو ملازمت سے برطرف کرتے ہوئے کامسیٹس میں آئندہ انہیں تدریس کے لیے بلیک لسٹ کر دیا ہے۔

نوید خان نے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ معاملے کی تحقیقات کے دوران لیکچرار نے تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے انٹرنیٹ سے سوال ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد اسے پڑھے بغیر پرچے میں شامل کر لیا تھا۔

ایڈیشنل رجسٹرار کے مطابق لیکچرار کی غلطی تسلیم کرنے کے بعدیونیورسٹی نے ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں برطرف کیا۔

ان کے بقول، اس معاملے پر وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے نوٹس سے قبل ہی یونیورسٹی ایکشن لے چکی تھی۔

اس بارے میں آل پاکستان پرائیویٹ اسکول فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا نے وائس آ ف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایک عرصے سے نصابِ تعلیم کو اسلامی اصولوں کے خلاف بنانے کی کوشش ہو رہی ہے اور ماضی میں بھی ایسے سوالات اور چیزیں نصاب میں شامل کی جاتی رہی ہیں جو معاشرتی اقدار کے خلاف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کامسیٹس یونیورسٹی میں اس معاملے پر مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اور ذمہ دار افراد کو سزا دینی چاہیے۔

'طالب علم کو ذاتیات کے بارے میں جواب دینے کا نہیں کہا جا سکتا'

اس بارے میں قائد اعظم یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کہتے ہیں کہ یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے جس میں استاد نے غفلت اور لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔

پرویز ہود بھائی کے مطابق امتحانی نظام میں کسی بھی طالب علم کو ذاتیات کے بارے میں جواب دینے کا نہیں کہا جا سکتا اور اس قدر بے ہودہ سوال بھی نہیں پوچھا جاسکتا۔

سینیٹر مشتاق احمد نے پیر کو ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ وہ قابلِ اعتراض سوال کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے انگریزی کے پرچے میں مضمون کے انتخاب کو اسلامی تعلیمات، معاشرت، اقدار اور خاندانی نظام پر ڈرون حملہ قرار دیا ہے۔

سینیٹر مشتاق کے مطابق وہ اس معاملے کو ایوانِ بالا میں اٹھائیں گے۔

XS
SM
MD
LG