رسائی کے لنکس

دی کیرالہ اسٹوری: حقائق پر مبنی فلم یا اسلامو فوبیا کو فروغ دینے کی کوشش؟


حال ہی میں ریلیز ہونے والی ہندی فلم 'دی کیرالہ اسٹوری' کی باکس آفس پر کامیابیوں کا سلسلہ جاری ہے، فلم بیرونِ ملک سے بھی غیر معمولی بزنس کر رہی ہے۔ دوسری طرف اس فلم کے میکرز پر مسلمانوں کے خلاف مذہب کی بنیاد پر نفرت ، خوف اور تعصب پر مبنی مہم اسلامو فوبیا کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔

فلم سازوں کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پانچ مئی کو ریلیز ہونے والی اس فلم نے 15 روز میں بھارت سے ایک ارب 75 کروڑ بھارتی روپے جب کہ بیرونِ ملک تقریباً چھ کروڑ روپے کا برنس کیا ہے۔

'دی کیرالہ اسٹوری' کی ہدایات سدیپتو سین نے دی ہیں جب کہ اس میں اداکارہ ادھا شرما، یوگیتا بہانی، سدھی ادنانی اور دیوادرشنی نے اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔

فلم سازوں نے بھارت کے سپریم کورٹ میں ریاست مغربی بنگال اور تامل ناڈو میں اس فلم کی نمائش پر پابندی کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے۔

یاد رہے کہ مغربی بنگال میں 'دی کیرالہ اسٹوری' کی نمائش پر باضابطہ پابندی عائد ہے جب کہ تامل ناڈو میں حکومتی سطح پر اس طرح کا کوئی اقدام نہیں کیا گیا ہے۔

سرکاری وکیلِ صفائی امیت آنند تیواری نے عدالت کو بتایا تھا کہ تامل ناڈو میں فلم پر کوئی پابندی نہیں ہےاور اس کی نمائش کے لیے سیکیورٹی فراہم کر دی گئی ہے۔

دوسری جانب ایسی ریاستیں جہاں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) کی حکومت ہے وہاں نہ صرف اس فلم کی حمایت کی گئی ہے بلکہ ان کے وزرائے اعلیٰ نے اس فلم کو دیکھنے کے بعد عوام کو بھی اسے دیکھنے کی ترغیب دی۔

ریاست مدھیہ پردیش، ہریانہ اوراتر پردیش کی حکومتوں نے فلم کو تفریحی ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔

دی کیرالہ اسٹوری: کہانی کیا ہے؟

'دی کیرالہ اسٹوری' تین ایسی ہندو خواتین کی کہانی ہے جو 'لو جہاد' کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں ۔ 'لو جہاد' بھارت میں ہندو قوم پرستوں اور ہندوتوا عناصر کی طرف سے پھیلایا جانے والا ایک مفروضہ ہے جس کے مطابق مسلمان مرد، ہندو خواتین کو ورغلا کر انہیں مذہب تبدیل کرنےاور پھر اپنے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

یہ فلم ایسی ہی تین خواتین کی کہانی پر مبنی ہے جنہیں بعد میں دہشت گرد تنظیم داعش کا رکن بننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

فلم میں مرکزی کردار اداکارہ ادھا شرما (شالنی اونی کرشنن) کا ہے جو بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ کی شہری ہیں جنہوں نے مذہب اسلام میں داخل ہوکر اپنا نام فاطمہ رکھا ہے۔وہ ایک نرس بننا چاہتی تھیں لیکن انہیں ان کے گھر سے اغوا کر کے انتہا پسند گروپوں کی طرف سے جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعدازاں فاطمہ کو داعش میں شامل ہونے کے لیے مجبور بھی کیا جاتا ہے اور پھر وہ افغانستان کی ایک جیل میں قید ہوجاتی ہیں۔

فلم میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریاست کیرالہ میں ایسی ہندو اور مسیحی خواتین کی تعداد 32 ہزار ہے جو مسلمان انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھ چکی ہیں اور شالنی ان میں سے ایک ہے۔

'دی کیرالہ اسٹوری' کے مطابق ان خواتین نے 'لو جہاد' کے جال میں پھنس کر مسلمانوں کے ساتھ شادیاں کیں اور مذہب اسلام میں شامل ہونے کے بعد انہیں بنیاد پرست بنایا گیا اور پھر یہ داعش کا حصہ بن گئیں۔

فلم کے ہدایت کار سدپتو سین گزشتہ کئی برس سے اس طرح کے دعویٰ کررہے ہیں ۔ انہوں نے 2018 میں ایسی 33 ہزار ہندواور مسیحی لڑکیوں پر ایک دستاویزی فلم بنائی تھی جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ ان سے زبردستی اسلام قبول کرایا گیا جو ان کے بقول کیرالہ کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی بین الاقوامی سازش کا حصہ تھا۔

بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کی کوشش کا الزام

ناقدین نے 'دی کیرالہ اسٹوری' کو محض ایک پروپیگنڈا قرار دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ یہ فلم اس مہم کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کر کے بی جے پی کا ووٹ بینک بڑھانا ہے۔

صحافی اور مصنفہ تولین سنگھ نے وائس آ ف امریکہ کو بتایا کہ اس طرح کی پروپیگنڈا فلمیں بنانے کا مقصد نفرت پھیلانا ہے۔ ریاست مہاراشٹرا کے شہر اکولہ میں پہلے ہی اس فلم کی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں۔ فکر کی بات یہ ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ریاست کرناٹک میں حال ہی میں کرائے گئے اسمبلی انتخابات کے دوران اپنی مہم کے دوران اس فلم کی تائید و حمایت کی تھی اور اسے فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی تھی۔

بھارت میں مسلمانوں کی ایک بڑی سیاسی اور مذہبی تنظیم جمعیتِ علمائےہند نے رواں ماہ کے آغاز پر سپریم کورٹ سے اس فلم پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔

تنظیم نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ یہ فلم نفرت آمیز تقریر پر مبنی ہے اور غالب امکان ہے کہ اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا ہو گی اور خلیج بڑھ جائے گی۔

لیکن عدالتِ عالیہ نے یہ درخواست خارج کرتے ہوئے درخواست گزار سے کہا تھا کہ وہ کیرالہ ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔

'دی کیرالہ اسٹوری' بنانے والوں ، اس کی کاسٹ، بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کا اصرار ہےکہ یہ فلم حقائق کی عکاسی کرتی ہے اور اس پر تنقید بے جا اور ہندو دشمنی کی مظہر ہے۔

'فلم مسلمانوں کے نہیں داعش کے خلاف ہے'

'دی کیرالہ اسٹوری' میں نماہ میتھیوس کا مرکزی کردار ادارکرنے والی اداکارہ یوگیتا بہانی نے اس فلم کو پروپیگنڈا کہنے کے ردِ عمل میں کہا کہ "میں لوگوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ پہلے اس فلم کو دیکھیں، یہ فلم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف ہے اور مذہب سے ہٹ کر خواتین کی حفاظت اور سماج میں اس کی اہمیت پر مرکوز ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "میں ہر طرح کے خیالات کا احترام کرتی ہوں۔ اگر کوئی یہ فلم دیکھنا چاہتا ہے اسے مت روکیے ۔ میں ان لوگوں کے فیصلے کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہوں جو اس فلم کو نہیں دیکھنا چاہتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ ان سے متعلق نہیں ہے۔"


بھار ت کی وفاقی وزیر برائے خواتین و بہبودِ اطفال اور اقلیتی امور سمرتی ایرانی نے گزشتہ دنوں 'دی کیرالہ اسٹوری ' دیکھنے کے بعد کہا تھا کہ یہ ایک 'ویک اپ کال' یا بیدار کرنے والی ترغیب ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ سیاسی جماعتوں سمیت جو لوگ اس فلم کی مخالفت کررہے ہیں وہ دراصل دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

بی جے پی کے سرکردہ لیڈر دیویندر سنگھ نے سمرتی ایرانی کے اس بیان کی تائید کی اور کہا کہ اگر کسی فلم میں زمینی حقائق کی عکاسی کرکے حقیقت کو بیان کیا گیا ہے اور وہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے جسے خصوصی مفادِ رکھنے والےاور دہشت گرد ی کے حامی عناصر بوجوہ چھپانے کی کوشش کررہے ہیں، تو ایسی فلم بنانے والوں کی پذیرائی ہونی چاہیے۔

انہوں نے ریاستی بی جے پی حکومتوں کی طرف سے فلم پر تفریحی ٹیکس معاف کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس فلم کو زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھ کر ، کیرالہ کی 'حقیقت' کو جان لیں۔

دیویندر سنگھ نے کہا تھا کہ گجرات آسام، اروناچل پردیش، گوا، اترا کھنڈ، تری پورہ سمیت ایسی ریاستیں جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اس فلم پر تفریحی ٹیکس معاف کردیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG