رسائی کے لنکس

’شرپسندوں کو 2002 میں سبق سکھا دیا تھا‘؛ گجرات فسادات پرامت شاہ کے بیان پر تنازع


بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ (فائل فوٹو)
بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ (فائل فوٹو)

بھارت میں سرکردہ شہریوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاست دانوں نے مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ کے اس بیان کی مذمت کی ہے کہ 2002 میں شرپسندوں کو سبق سکھا دیا گیا اور اس کے بعد سے ریاست گجرات میں مستقل امن ہے۔

امت شاہ نے جمعے کو ریاست گجرات کے علاقے مہودھا میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ گجرات میں کانگریس کے دور حکومت میں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے تھے۔ اس طرح کانگریس نے اپنا ووٹ بینک مضبوط کیا اور عوام کے ایک بڑے طبقے کے ساتھ ناانصافی کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’لیکن انہیں 2002 میں سبق سکھا دیا گیا۔ اب ان عناصر نے تشدد کا راستہ ترک کر دیا ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ بی جے پی نے ان لوگوں کے خلاف جو پرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہتے تھے، سخت کارروائی کرکے گجرات میں مستقل امن قائم کر دیا۔‘‘

وزیرِِ داخلہ امت شاہ کے اس الزام پر کانگریس نے تاحال کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیاہے جب کہ مبصرین کے مطابق اگرچہ امت شاہ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ انہوں نے اپنے بیان میں2002 میں کن ’شر پسندوں‘ کو سبق سکھانے کی بات کی تھی البتہ عام خیال یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔

اس وقت گجرات میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کی مہم جاری ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) گزشتہ 27 برس سے گجرات میں اقتدار میں ہے۔ انتخابات میں یکم اور پانچ دسمبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور ووٹوں کی گنتی آٹھ دسمبر کو ہوگی۔

’بی جے پی نے اعتراف کرلیا‘

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی، ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہووا موئترا اور شیو سینا کی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی نے امت شاہ کے بیان پر اپنے الگ الگ ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی اور ریاستی حکومت فسادات میں ملوث تھیں۔

اسد الدین اویسی نے گجرات کے جوہوپورا میں ایک عوامی جلسے میں اور پھر بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امت شاہ کے سبق سکھانے کے بیان کا مطلب ہے مجرموں کو رہا کر دینا۔

انہوں نے کہا کہ وزیرِ داخلہ تشدد کو درست قرار دے رہے ہیں، اگر انہوں نے مجرموں کو سبق سکھایا تو بلقیس بانو کے مجرموں کو کیوں رہا کر دیا، جس شخص نے نرودا پاٹیا میں 92 مسلمانوں کو قتل کیا وہ بی جے پی کے لیے ووٹ کیوں مانگ رہا ہے؟

اسد الدین اویسی نے الزام لگایا کہ فسادات میں ریاست ملوث رہی ہے۔ بلقیس بانو کو 18 بار اپنی رہائش گاہ تبدیل کرنی پڑی۔ ذکیہ جعفری اپنے شوہر احسان جعفری کے قتل کے معاملے میں انصاف مانگ رہی ہیں۔ ان کے بقول امت شاہ اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ گجرات میں ریاست کی مرضی سے فسادات ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ بی جے پی نے نرودا پاٹیا قتلِ عام کے مجرم منوج ککرانی کی بیٹی پائل ککرانی کو نرودا پاٹیا حلقے سے اپنا امیدوار بنایا ہے۔ منوج ضمانت پر جیل سے باہر ہیں اور اپنی بیٹی کے لیے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

گجرات کے علاقے نرودا پاٹیا میں یہ قتلِ عام 2002 میں سابرمتی ایکسپریس واقعے کے بعد ہوا تھا جس میں 90 سے زائد مسلمان ہلاک ہوگئے تھے۔

ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی

مرکزی حکومت کے ایک سابق سیکریٹری ای اے ایس شرما اور ایک سماجی کارکن اور ماہر تعلیم جگدیپ چھوکر نے الیکشن کمیشن کے نام الگ الگ مکتوب میں الزام عائد کیاہے کہ امت شاہ نے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

شرما نے اپنے خط میں کہا ہے کہ امت شاہ کے بیان کا یہ مطلب ہے کہ قانون نافذ کرنے والے حکام کے علاوہ ایک سیاسی جماعت اور عوام کے بعض طبقات نے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر دوسروں کو سبق سکھایا۔

واضح رہے کہ فروری 2002 میں سابر متی ایکسپریس سے ایودھیا سے لوٹنے والے ہندوؤں کے ڈبے میں آتش زدگی ہوئی تھی جس میں 59 افراد جھلس کر ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ افراد رام مندر کی تحریک میں حصہ لینے کے لیے گئے تھے۔

اس واقعے کے اگلے روز یعنی 28 فروری 2002 کو گجرات میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جو مہینوں تک جاری رہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان فسادات میں ایک ہزار اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔اس وقت بھی گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی اور بھارت کے موجودہ وزیرِِ اعظم نریندر مودی اس وقت ریاست کے وزیرِِ اعلیٰ تھے۔

اے ایس شرما نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنا اجلاس بلائے اور امت شاہ سے وضاحت طلب کرکے ان کے خلاف کارروائی کرے۔ ان کے بقول امت شاہ کے بیان سے انتخابی مہم متاثر ہوگئی ہے اور اب غیر جانب دارانہ انتخابات ممکن نہیں ہیں۔

جگدیپ چھوکر کے مطابق امت شاہ کا بیان تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کے خلاف ہے لہٰذا جب تک آزادانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات کا ماحول نہیں بنتا، انتخابات ملتوی کر دیے جائیں۔

گجرات فسادات پر از سر نو سماعت کا مطالبہ

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کا کہنا ہے کہ وزیرِِ داخلہ امت شاہ کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ ان ہی لوگوں نے گجرات فساد کرایا تھا اور اب وہ اس کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ گجرات فسادات پر از سرِ نو سماعت کرے کیوں کہ اس وقت کے ریاستی وزیر داخلہ امت شاہ نے فسادات میں حکومت کے ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن کو امت شاہ کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے کیوں کہ یہ انتخابی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی ہے اور یہ دو فرقوں میں نفرت پیدا کرنے والا بیان ہے۔

ڈاکٹر ظفر الاسلام کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن سے کسی کارروائی کی امید نہیں ہے۔ یہ حکومت ایسے لوگوں کو کمشنر نامزد کرتی ہے جو آزادانہ کام کرنے کے بجائے اس کی ہدایات کی پابندی کریں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے تمام آئینی اداروں کو کنٹرول میں کر لیا ہے، الیکشن کمیشن بھی اس سے خوف زدہ رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمشنرز کے تقرر پر سخت تبصرہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ الیکشن کمشنرز کے تقرر سے متعلق ایک معاملے پر سماعت کر رہا ہے۔ بینچ نے حال ہی میں نامزد کیے گئے ایک الیکشن کمشنر ارون گوئل کی نامزدگی سے متعلق فائل طلب کر لی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ الیکشن کمشنرز ایسے ہونے چاہئیں جو وزیر اعظم سے بھی وضاحت طلب کر سکیں اور حکومت کے ’یس مین‘ نہ ہوں۔

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اس بار اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی پوزیشن اچھی نہیں ہے اسی لیے ان کے بقول امت شاہ نے مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے والا بیان دیا ہے۔

پاکستان کا ردِعمل

امت شاہ کے اس بیان کی پاکستان نے بھی مذمت کی ہے۔ اتوار کو دفترِ خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو 2002 کے مسلم مخالف پر تشدد واقعات میں بی جے پی قیادت کی براہ راست شمولیت پر تشویش ہے۔

بیان کے مطابق یہ انتہائی قابل مذمت ہے کہ بی جے پی نے سیاسی فائدے کے لیے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا اور مسلمانوں کو ہدف بنایا۔

پاکستان نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ گودھرا کے ہولناک واقعے کے ساتھ ساتھ گجرات فسادات کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے فوری طور پر ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے فسادات کی آزادانہ تحقیقات سے متعلق قومی انسانی حقوق کمیشن کی درخواست پر سماعت سمیت گجرات فسادات سے متعلق 11 مقدمات کو ’بے نتیجہ‘ قرار دیتے ہوئے رواں سال اگست میں بند کر دیا تھا۔

عدالت نے خصوصی تفتیشی ایجنسی (ایس آئی ٹی) کی جانب سے نریندر مودی کو کلیٹ چٹ دیے جانے کے خلاف گجرات فسادات میں ہلاک ہونے والے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی دائر کی گئی عذرداری کو بھی خارج کر دیا تھا۔

گجرات میں ہونے والے فسادات سے متعلق نریندر مودی اور بی جے پی کے دیگر رہنماوں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں پر عائد کیے جانے والے الزامات عدالت میں ثابت نہیں ہو سکے اور مقدمات خارج کر دیے گئے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG